Tag Code:
Advertise With Us
اردو
हिन्दी
اگست 8, 2022
Latest News | Breaking News | Latest Khabar in Urdu at Roznama Khabrein
  • ہوم
  • خبریں
  • فکر ونظر
    • مذہبیات
    • مضامین
  • گراونڈ رپورٹ
  • انٹرٹینمینٹ
  • متفرقات
  • ہیٹ کرا ئم
No Result
View All Result
  • ہوم
  • خبریں
  • فکر ونظر
    • مذہبیات
    • مضامین
  • گراونڈ رپورٹ
  • انٹرٹینمینٹ
  • متفرقات
  • ہیٹ کرا ئم
No Result
View All Result
Latest News | Breaking News | Latest Khabar in Urdu at Roznama Khabrein
No Result
View All Result
Support Us
Home Uncategorized

مدراس چلانے کیلئے زکوٰۃ کے علاوہ دیگر ذرائع تلاش کریں

RK News by RK News
مارچ 20, 2021
in Uncategorized, فکر ونظر
0
مدراس چلانے کیلئے زکوٰۃ کے علاوہ دیگر ذرائع تلاش کریں
96
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

ترجمہ:اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ( سورۃ البقرة، آیت نمبر 188)

قاسم شاذ فراہی

ایک مدت سے مدارس میں زکوٰۃ کے طریقۂ استعمال کی غلطی پر کچھ مدارس کے لوگوں سے اپنی گفتگو کو بےسود محسوس کرنے کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اس موضوع پر ایک مختصر سی تحریر لکھ کر ہر خاص و عام تک پہنچاؤں تاکہ لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہی ہو سکے اور لوگ اس بھیانک بیماری کا سد باب کرنے کے لیے کمر بستہ ہوں اور اصلاح کے ذریعہ سے ان لوگوں کو آخرت کی جواب دہی سے بچایا جا سکے جو انجانے میں اس خرابی میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف مستحقین تک ان کے حقوق کے پہنچنے کی راہیں ہموار ہوسکیں ۔
ہمارے دینی مدارس کی ابتدا جس دور میں ہوئی اس وقت ممکن ہے مدارس کو چلانے کے لیے مال کی فراہمی کا یہی ایک واحد راستہ رہا ہو جسے ہمارے بزرگوں نے چار وناچار اختیار کیا ہو لیکن دور حاضر میں اسی قدیم طریقہ پر مدارس کو چلانا خیانت کے مترادف ہے جس سے اجتناب نہایت ضروری ہے اس لیے سب سے پہلے میں وہ طریقہ بتانا چاہتا ہوں جو مدارس کو چلانے کے لیے موزوں ہے اور اس کے بعد موجودہ سسٹم کی خرابیوں پر روشنی ڈالوں گا۔
ہمارے مدارس میں پڑھنے والے طلبہ یا تو مستحق زکوٰۃ ہوں گے یا نہیں ہونگے۔
اب ہم اپنے سالانہ خرچ پر مزید پندرہ سے بیس فیصد کا اضافہ کر کے اپنا سالانہ بجٹ بنا لیں، اساتذہ کی مناسب تنخواہ کو سامنے رکھ کر ہی بجٹ بنائیں اور تمام طلبہ پر اسے تقسیم کر کے دیکھیں کہ ایک طالب علم پر ماہانہ کتنا خرچ آتا ہے، پھر اسے اس طرح ایڈجسٹ کریں کہ کلاس کے حساب سے نچلی کلاس میں کتنی فیس مناسب ہوگی اور اوپر کے درجات کے لیے کیا فیس مناسب ہوگی، اسے طے کرکے جاری کردیں۔
اگلا مرحلہ فیس وصولی کا ہے ،اس سلسلہ میں یہ لائحۂ عمل طے کیا جائے کہ جو بچے پوری فیس جمع کر سکتے ہیں جمع کریں اور جن کی مالی حالت کمزور ہے ان کے لیے فارم کے اندر کالم ہو کہ کتنی فیس معاف کروانا چاہتے ہیں 25 فیصد 50 فیصد 75فیصد یا 100 فیصد، اسی طرح بس کا کرایہ، کتاب، کاپی اور ڈریس وغیرہ کی فراہمی کا کالم بھی ہو ،تاکہ جو جتنے کا مستحق ہو اس کو اس کی ضرورت کے بقدر مدد فراہم کی جا سکے اور یہ تمام فیس مدرسے کا بیت المال اپنی موصولہ زکوٰۃ میں سے خرچ کرے۔
مدارس کے ذمہ داروں کا یہ اندیشہ کہ یکایک فیس کے بوجھ سے لوگ گھبرا جائیں گے، تو ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ جب ان کو تمام تفصیلات بتائی جائیں گی تو اس نئی اسکیم سے انہیں خوشی ہوگی، ان کو یہ بات بہ آسانی اور اچھی طرح سمجھائی جا سکتی ہے کہ چونکہ جن حالات میں مدارس کا قیام ہوا اس وقت اس طرح سے مدارس کو چلانا بزرگوں نے بہتر سمجھا اور اب تک وہ طریقہ قایم رہا لیکن اب حالات بہت بدل چکے ہیں، سماج میں مالی بہتری آئی ہے، اس لیے صاحب ثروت اور صاحب استطاعت افراد کے بچوں کو زکوٰۃ کی مد سے تعلیم دینا غیر مناسب عمل ہے اور صاحب استطاعت کے لیے زکوٰۃ کے پیسے سے اپنے بچوں کو تعلیم دلانا بھی اچھا نہیں، ان حالات میں یہ معاملہ کس طرح درست ہو سکتا ہے جبکہ مستحقین زکوٰۃ تک زکوٰۃ کا فیض کما حقہ نہیں پہنچ رہا ہے، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وقت اور حالات کی ضرورت کے حساب سے نظام میں تبدیلی کی گئی ہے جو کہ ضروری تھی اور اس عمل سے ہم کلی طور پر مطمئن بھی ہو جائیں گے کہ ہم نے موصولہ مال جہاں خرچ کیا ہے اس کی بنیاد پر آخرت میں اس سلسلہ میں ہماری گلو خلاصی ممکن ہو سکے گی۔
لیکن اگر کوئی صاحب استطاعت یہ کہتا ہے کہ میں فیس دے کر بچے کو نہیں پڑھا ؤں گا آپ اگر مفت میں پڑھا سکتے ہیں تو ٹھیک ہےتو پھر ایسے بچوں کے لیے ہر حال میں مدارس کا دروازہ کھلا ہونا چاہیے کہ اگر باپ اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتا تو سماج نبھائے اور وہ بچہ دینی تعلیم کے بنیادی حق سے محروم نہ رہے۔
تبدیلی کے ان مراحل میں کام کی زیادتی کی وجہ سے مدارس کی انتظامیہ کو ایک عرصہ تک بہت متحرک رہنا پڑ سکتا ہے مگر اس کے بعد مدارس کے ذمہ دار، اساتذہ اور طلبہ حتی کہ پورا مسلم سماج جس ذہنی آسودگی سے ہم کنار ہو گا اُس کا تصور بھی اِس وقت ممکن نہیں۔
اب موجودہ حالات میں مدارس کے اندر زکوٰۃ کے استعمال کے جو طریقے رائج ہیں ان کا ایک سرسری جائزہ لے کر دیکھ لیتے ہیں کہ وہ قابل عمل ہیں یا انہیں ترک کر دینا ہی اطمینان کا باعث ہوگا۔
ہم اپنے معاشرے میں کچھ ایسے مدارس پاتے ہیں جو فی سبیل اللہ کی مد میں زکوٰۃ کو دینی تعلیم کے فروغ پر خرچ کرتے ہیں ،آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اساتذہ کی تنخواہ زکوٰۃ سے ادا کرتے ہیں اس کے علاوہ مستحقین زکوٰۃ طلبہ کی فیس خوراک ادا کرنے اور ان کی دیگر ضروریات کی فراہمی پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرتے ہیں اور ان کے یہاں شورائی نظام کے تحت ہی مدرسے کا نظام چلتا ہے،حساب مکمل شفاف ہوتا ہے اور اس کی جانچ کے لئے انتظامیہ سے الگ باہر کے کچھ لوگ ہفتہ میں ایک یا دو دن آکر سارا حساب چیک کرتے ہیں اور کوئی بھی آدمی وقت لے کر جاکرحساب دیکھ سکتا ہے، اِن تمام خوبیوں کے باوجود اُن کے نظام میں یہ عیب ضرور ہے کہ ہر بچے پر تعلیمی خرچ کا جو حصہ آتا ہے وہ یا تو مکمل زکوٰۃ فنڈ سے ادا کیا جاتا ہے یا اگر وہ بچوں سے فیس لیتے بھی ہیں تو اتنی کم لیتے ہیں کہ صاحب استطاعت بچوں پر ہونے والے خرچ کا کچھ حصہ زکوٰۃ فنڈ سے جاتا ہے حالانکہ ان کے والدین خود زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور کچھ صاحب ثروت تو ایسے بھی ہیں جو بہت سے غریب بچوں کی کفالت کر رہے ہوتے ہیں اور غیر محسوس طریقہ سے ان کا اپنا بچہ بھی زکوٰۃ کی رقم سے دی جانے والی تعلیم سے اپنا حصہ کشید کر رہا ہوتا ہے اور اس نظام کی اصلاح بہت ضروری ہے۔
دوسرے وہ مدارس ہیں جو زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک (یعنی کسی کو زکوٰۃ کی مد میں ملی ہوئی رقم کا مالک بنانا) کو شرط مانتے ہیں اور بغیر تملیک کے مدارس کے اندر زکوٰۃ کی رقم کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے (( طوالت سے بچنے کے لئے میں تملیک پر بحث نہیں کروں گا اس لیے جو لوگ تملیک کے بارے میں جاننا چاہتے ہوں وہ گوگل پر مسئلہ تملیک لکھ کر سرچ کرکے کافی معلوماتی مضامین حاصل کر سکتے ہیں )) اس لیے زکوٰۃ کو اپنے حق میں قابل استعمال بنانے کے لیے تملیک کے حیلہ کا سہارا لیتے ہیں اور یہ حیلہ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے بلکہ یہ ایک خود ساختہ قانون ہے جسے روبہ عمل لا کر اہل علم کے ایک طبقہ نے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے، تملیک کا حیلہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی جو رقم وصول ہوکر مدارس میں پہنچتی ہے اس کو کسی نادار شخص یا طالب علم کو بلا کر یہ سمجھا کر دے دیا جاتا ہے کہ یہ مدرسہ اتنا مقروض ہے یا یہ کام ہے یا مدرسے کا اتنا سالانہ خرچ ہے یا یہ پروجیکٹ ہے جس میں اتنے پیسے کی ضرورت ہے، اب یہ رقم آپ کو دی جارہی ہے جس کو آپ اس مد میں خرچ کر کے اس ذمہ داری کو نبھا دیجیئے وغیرہ وغیرہ، اب وہ رقم ان کے خیال میں تملیک کے حیلہ کے بعد اس قابل بن جاتی ہے کہ مدرسہ کے جملہ ضروریات میں کہیں بھی استعمال ہوسکتی ہے اور ہوتی بھی ہے، اس طرز کے مدارس میں عموماً مہتمم/ناظم کی شخصیت سے لوگ کچھ زیادہ ہی مرعوب ہو جاتے ہیں اور کسی بھی طرح کے سوال کرنے کو مہتمم کی بے حرمتی سمجھتے ہیں، اسی احترام اور تقدس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض مہتمم حضرات اس عوامی مدرسہ کو شخصی اور خاندانی مدرسہ میں تبدیل کر لیتے ہیں اور اب یہ عوام کے زر تعاون سے قایم ہوکر چلنے والا مدرسہ کہنے کو عوامی مدرسہ ضرور رہتا ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے اب یہ موروثی ملکیت میں تبدیل ہو چکا ہوتا ہے (الا ماشاءاللہ )،ایسے مدارس میں مہتمم حضرات اپنے موافق کچھ لوگوں کو شوریٰ یا انتظامیہ کا رکن بنا لیتے ہیں جو ربر اسٹامپ کی طرح استعمال ہوتے رہتے ہیں جن کو سفید و سیاہ کی کچھ تمیز نہیں ہوتی، اب مہتمم یا ناظم جو کہ تمام سفید و سیاہ کا مالک ہے وہ جو چاہے کرے اس سے کوئی سوال کرنے والا نہیں ہوتا چاہے ان پیسوں سے وہ خود کو بہت بڑا تاجر بنا لے، بڑی بڑی گاڑیوں سے چلے، جہاں جائے مریدین وخدام کی نفری ساتھ ہو جس سے حضرت کی شخصیت کا رعب لوگوں میں بیٹھ جائے اور حضرت کی جو مرضی ہو وہ کریں، جب جسے چاہیں مدرسہ میں رکھ لیں، جسے جب چاہیں نکال باہر کریں، یہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں عوام الناس کے مشاہدات کا حصہ ہے، مگر تمام ہی مہتمم ایسے نہیں ہوتے بلکہ بعض سلیم الطبع مہتمم تو اپنی پوری زندگی مدرسہ کی فلاح و بہبود پر لگا دیتے ہیں اور چندہ کی رقم سے بقدر شرعی اجازت اورضرورت ہی اپنے اور اپنے خاندان پر خرچ کرتے ہیں ۔
ان مدارس میں جب کوئی شخص خود کو مہتمم کے مد مقابل سمجھنے لگتا ہے تو نتیجہ کے طور پر یا تو اسے خود مدرسہ چھوڑنا پڑتا ہے یا پھر کسی الزام کی بنیاد پر اسے نکال دیا جاتا ہے اور پھر وہ اپنے لیے نئی زمین تلاش کرتا ہے اور رسید چھپوا کر خود سفید وسیاہ کا مالک بن جاتا ہے۔
ان مدارس میں عموماً اساتذہ و خدام کو اپنا ضمیر بیچ کر یا حالات سے سمجھوتا کرتے ہوئے مجبورا مہتمم صاحب کی چاپلوسی کرنی پڑتی ہے ان کی ہر ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے،اب تو بہت سارے علما یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور بعض علما نے اس کے خلاف تحریریں بھی لکھی ہیں کہ بعض مدارس کے ذمہ داروں نے تمام زمینیں اپنے نام سے خریدی ہیں جو کہ قومی زکوٰۃ کے پیسے سے بلاواسطہ یا حیلۂ تملیک کے ذریعہ خریدی گئی ہیں ، اس طرح قوم کے دیے ہوئے زکوٰۃ فنڈسے قایم یا زکوٰۃ سے چلنے والے یہ مدارس پشتینی ملکیت کی طرح استعمال کیے جا رہے ہیں، ان مدارس کو شخصی ملکیت سے نکال کر قومی ملکیت میں تبدیل کر کے مضبوط شوریٰ یا انتظامیہ کے ذریعہ چلانا ضروری ہے تاکہ پائی پائی کا درست حساب ہمہ وقت لیا جا سکے اور اساتذہ اور تمام خدام مدرسہ اپنے آزادضمیر اور عزت کے ساتھ مناسب تنخواہ پر مدرسہ میں اپنی خدمات انجام دے سکیں، ان کے سروں پر سے وہ لٹکتی ہوئی تلوار بھی ہٹ جائے کہ اگر چاپلوسی نہیں کی تو کسی بھی وقت بوریا بستر بندھ سکتا ہے۔
ان تمام امور پر عوام و خواص کو سوچنا ہوگا کہ اگر یہ سب کچھ خدا کی مرضی کے مطابق ہے تو اسی طرح سے چلتے رہنے دینا چاہیے اور اگر یہ سب کچھ منشائے ربانی کے خلاف ہو رہا ہے تو ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں جن کو نہ نبھا پانے کی صورت میں ہم سے محاسبہ ہو سکتا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ حیلہ کیا ہے اور اس کے جواز کے لیے کوئی ثبوت ہے بھی یا نہیں، قرانی تاریخ کے حوالے سے ہم تک یہ بات پہنچ چکی ہے کہ سبت کے معاملے میں بنی اسرائیل نے حیلے کا سہارا لیا اور اس وجہ سے ان پر اللہ کا عتاب نازل ہوا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں حلالہ کے حیلہ کے امکانات پر سرزنش کرتے ہوئے سخت وعید سنائی اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ بتایا ان تنبیہات کے باوجود ہمارے یہاں اب تک یہ دھندا چل رہا ہے جبکہ علما کی کثیر تعداد اس کے خلاف آواز اٹھاتی رہتی ہے اس دھندے میں بعض نکاح خواں "حلالہ مولوی” کے نام سے مشہور ہیں لیکن یہ "حیلۂ تملیک” بعد کی پیداوار ہے اس لیے علما کی اقلیت تو اسے حرام سمجھتی ہے لیکن اکثریت نے ناپسندیدہ کہہ کر بعض شرائط کے ساتھ اس کے جواز کا فتوی دے رکھا ہے کہ اس طرح سے حیلہ کیا جائے تو مباح ہوگا، اس طرح کیا جائے تو مکروہ ہوگا اور اگر اس طرح کیا گیا تو ناجائز ہوگا وغیرہ، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ ان کی اپنی دکانداری ہے ورنہ حلال چیزوں کی حرمت کا فتویٰ دینے والے ناجائز کو حلال کیسے کہتے، ان تفصیلات سے یہ ثابت ہوا کہ بنی اسرائیل ایک حیلے کا ارتکاب کر کے خدا کے غضب کے مستحق ٹھہرے اور ہم نے دو حیلوں کے ذریعہ اپنی مراد حاصل کی اور شکایت یہ ہے کہ خدا کفار ومشرکین کے ساتھ کھڑا ہے۔
اس لیے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک ناجائز چیز کے کئی طریقے بتا کر اس میں سے ایک طریقہ جواز کا اپنے لیے نکال لینا قطعی نادرست ہے۔
حیلۂ سبت، حیلۂ حلالہ اور حیلۂ تملیک سب ایک طرح کی چیزیں ہیں اور ان میں سے کسی کے بھی جواز کا فتوی صادر کرنے والےیا اپنے علم اور اپنی عقل کو بالائے طاق رکھ کر اس طرح کے غلط فتویٰ کا سہارا لے کر ناجائز طریقے سے لوگوں کے حقوق کھانے والوں کو اپنی آخرت کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔

Related

ShareTweetSend
Previous Post

کورونا سےہلاکتوں کی تعداد میں کمی ،لیکن فعال کیسز میں اضافہ

Next Post

احتجاج کا دستوری حق

RK News

RK News

Related Posts

کچھ لوگوں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے نفرت کیوں ہے !
فکر ونظر

کچھ لوگوں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے نفرت کیوں ہے !

اگست 6, 2022
محمودمدنی اور اویسی کا موازنہ:انڈیا ٹی وی حماقت یا شرارت؟
فکر ونظر

محمودمدنی اور اویسی میں موازنہ:انڈیا ٹی وی کی خطرناک شرارت

جولائی 27, 2022
بی جے پی کی ہمدردی –  پسماندہ مسلمانوں سےہی کیوں عام مسلمان سے کیوں نہیں!
فکر ونظر

بی جے پی کی ہمدردی –  پسماندہ مسلمانوں سےہی کیوں عام مسلمان سے کیوں نہیں!

جولائی 25, 2022
تاریخ و تحقیق اور تبصرہ و تجزیہ کا فرق
Uncategorized

تاریخ و تحقیق اور تبصرہ و تجزیہ کا فرق

جولائی 18, 2022
Uncategorized

عید الاضحی عقیدت و احترام کے ساتھ منائ جارہی ہے

جولائی 10, 2022
Uncategorized

ایک اندرایک باہر،زبیر کوایک ، روہت رنجن کو تمام معاملوں میں  سپریم کورٹ سے راحت

جولائی 10, 2022
Next Post
protest-in-india

احتجاج کا دستوری حق

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ADVERTISEMENT
  • 18.4k Fans
  • 86.7k Followers
  • Trending
  • Comments
  • Latest
اے ٹی ایس کونہیں ملا ریمانڈ، عدالت نے پھٹکارا،مولانا کلیم کو چودہ دن کے لیے جیل بھیج دیا

اے ٹی ایس کونہیں ملا ریمانڈ، عدالت نے پھٹکارا،مولانا کلیم کو چودہ دن کے لیے جیل بھیج دیا

ستمبر 22, 2021
عمر گوتم کی بیٹی  کا کرب،سب نے ہمیں چھوڑدیا، لڑائ میں اکیلے رہ گیے،تنظمیں بھی خاموش،زندگی ختم سی ہوگئ

عمر گوتم کی بیٹی کا کرب،سب نے ہمیں چھوڑدیا، لڑائ میں اکیلے رہ گیے،تنظمیں بھی خاموش،زندگی ختم سی ہوگئ

نومبر 26, 2021
پہچانیے کون ہے یہ شخص!

پہچانیے کون ہے یہ شخص!

اکتوبر 26, 2021
آصف محمد خان اپنے الزامات کا ثبوت دیں:جرنلسٹ فرحان یحییٰ کا چیلنج

آصف محمد خان اپنے الزامات کا ثبوت دیں:جرنلسٹ فرحان یحییٰ کا چیلنج

جون 17, 2021
ٹوٹ گئیں زنجیریں،آئے دیوانے باہر،کہا- جنگ جاری رہے گی

ٹوٹ گئیں زنجیریں،آئے دیوانے باہر،کہا- جنگ جاری رہے گی

2
ہندوتوا میں پھنسنے کی جگہ نئے بیانیہ پرکانگریس میں غور

ہندوتوا میں پھنسنے کی جگہ نئے بیانیہ پرکانگریس میں غور

2
برطانوی حکمران جماعت میں ’اسلاموفوبیا ایک مسئلہ‘ ہے: رپورٹ

برطانوی حکمران جماعت میں ’اسلاموفوبیا ایک مسئلہ‘ ہے: رپورٹ

1
سینٹرل وسٹا کی زد میں مساجد،امانت اللہ کا انتباہ

سینٹرل وسٹا کی زد میں مساجد،امانت اللہ کا انتباہ

1
منی پور میں حالات کشیدہ،انٹرنیٹ خدمات معطل

منی پور میں حالات کشیدہ،انٹرنیٹ خدمات معطل

اگست 7, 2022
نتیش بابو کبھی بھی’ سیاسی دھماکہ’ کرسکتے ہیں

نتیش بابو کبھی بھی’ سیاسی دھماکہ’ کرسکتے ہیں

اگست 7, 2022
غزہ پر اسرائیلی بمباری ،6بچوں سمیت24شہری جاں بحق،عالمی برادری خاموش

غزہ پر اسرائیلی بمباری ،6بچوں سمیت24شہری جاں بحق،عالمی برادری خاموش

اگست 7, 2022
میڈیا سرکار کی پی آر ایجنسی بن گیا ہے: جماعت اسلامی ہند

میڈیا سرکار کی پی آر ایجنسی بن گیا ہے: جماعت اسلامی ہند

اگست 6, 2022

أخبار حديثة

منی پور میں حالات کشیدہ،انٹرنیٹ خدمات معطل

منی پور میں حالات کشیدہ،انٹرنیٹ خدمات معطل

اگست 7, 2022
نتیش بابو کبھی بھی’ سیاسی دھماکہ’ کرسکتے ہیں

نتیش بابو کبھی بھی’ سیاسی دھماکہ’ کرسکتے ہیں

اگست 7, 2022
Latest News | Breaking News | Latest Khabar in Urdu at Roznama Khabrein

روزنامہ خبریں مفاد عامہ ‘ جمہوری اقدار وآئین کی پاسداری کاپابندہے۔ اس نے مختصر مدت میں ہی سنجیدہ رویے‘غیر جانبدارانہ پالیسی ‘ملک وملت کے مسائل معروضی انداز میں ابھارنے اور خبروں وتجزیوں کے اعلی معیارکی بدولت سماج کے ہرطبقہ میں اپنی جگہ بنالی۔ اب روزنامہ خبریں نے حالات کے تقاضوں کے تحت اردو کے ساتھ ہندی میں24x7کے ڈائمنگ ویب سائٹ شروع کی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ آپ کی توقعات پر پوری اترے گی۔

Quick Links

  • ABOUT US
  • SUPPORT US
  • TERMS AND CONDITIONS
  • PRIVACY POLICY
  • GRIEVANCE
  • CONTACT US
  • ہوم
  • خبریں
  • فکر ونظر
  • گراونڈ رپورٹ
  • انٹرٹینمینٹ
  • متفرقات
  • ہیٹ کرا ئم

.ALL RIGHTS RESERVED © COPYRIGHT ROZNAMA KHABREIN

No Result
View All Result
  • ہوم
  • خبریں
  • فکر ونظر
    • مذہبیات
    • مضامین
  • گراونڈ رپورٹ
  • انٹرٹینمینٹ
  • متفرقات
  • ہیٹ کرا ئم

.ALL RIGHTS RESERVED © COPYRIGHT ROZNAMA KHABREIN

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Create New Account!

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist

Posting....
<-- popup advt. -->
<-- popup advt. -->