نئی دہلی: (پریس ریلیز)
”تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔اس حق کو ملک کے ہر شہری تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ہمارے ملک کے دستور میں آرٹیکل 38 میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہندوستان ایک فلاحی ریاست ہوگا، جس کا مطلب یہی ہے کہ ملک کے ہر فرد کو بنیادی حقوق فراہم ہوں گے۔ سال 2002 میں کچھ ترمیم کی گئی۔ اس کے تحت آرٹیکل 21-A شامل کیا گیا اور تعلیم کو تمام شہریوں کا بنیادی حق قرار دیا گیا۔یہ ترمیم بڑی امیدوں کے ساتھ لائی گئی تھی لیکن اس سے کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔تعلیم ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اسے ہر سطح پر اٹھانا چاہئے۔اس کے لئے جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے، اس کو اور اس کے محرکات کو سمجھ کر اس طرح کے مباحثے میں حصہ لینا چاہئے“۔ یہ باتیں جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے مرکزی تعلیمی بورڈ کی جانب سے دور وزہ ایجوکیشن بجٹ آف انڈیا کے عنوان سے منعقدہ ورکشاپ میں اپنے افتتاحیہ خطاب میں کہا۔ یہ ورکشاپ جماعت کے مرکز میں منعقد کیا گیا تھا۔ پروگرام میں مختلف ریاستوں سے آن لائن ماہرین تعلیم نے بھی حصہ لیا۔
امیر جماعت نے مزید کہا کہ 2021 کا جو بجٹ پیش کیا گیا ہے، اس میں تعلیم پر اخراجات کو گھٹا کر محض 93 کروڑ کردیا گیا ہے جو کہ مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) کا صرف 0.5 فیصد ہے جبکہ تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کے لئے جی ڈی پی کا 6 فیصد ہونا چاہئے۔جماعت اسلامی ہند برابر اس کا مطالبہ کرتی رہی ہے اور یہی مطالبہ بہت سے تعلیمی کمیشنوں کی جانب سے بھی کیا جاتا رہا ہے۔یہاں تک کہ ’نیتی آیوگ‘ سے بھی یہی مشورہ آیا ہے“۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”تعلیم کے بجٹ کو مرکزی اور ریاستی دونوں سطح پر بڑھانے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ورکشاپ میں اس پہلو پر بھی بحث ہونی چاہئے کہ تعلیم کے لئے مختص بجٹ کی تقسیم کس طرح سے ہو اور پرائمری ایجوکیشن، ہائر ایجوکیشن اور ریسرچ پر بجٹ کا کتنا حصہ خرچ کیا جانا چاہئے۔نیز حکومت کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی جانی چاہئے کہ تعلیمی اعتبار سے جو پسماندہ طبقات ہیں ان پر توجہ دینے کے لئے موثر اسکیمات لائی جائیں۔تاکہ تعلیمی اعتبار سے پسماندگی دور ہوسکے“۔
پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ کے فاؤنڈر اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر جاوید عالم نے بجٹ کے ٹرم و کنڈیشن، بجٹ بننے اور اس کے نفاذ پر روشنی ڈالی اور یہ بتایا کہ بجٹ کے نفاذ میں ہم اپنا رول کیا اور کیسے ادا کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر مرکزی تعلیمی بورڈ کے چیئر مین جناب مجتبیٰ فاروق نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ”بجٹ کے بارے میں ہمیں مسلم امت اور خیر امت ہونے کی وجہ نہ صرف اپنی کمیونٹی کے لئے کام کرنا ہے بلکہ دیگر محروم اور کمزور طبقات کے لئے بھی کام کرنا ہے۔ملک کی خیر خواہی کا تقاضہ ہے کہ بجٹ کو ٹھیک طور پر پاس کرانے میں اور اس کے نفاذ میں آگے بڑھ کر خدمت کے جذبے سے کام کریں۔ 6 فیصد تعلیم کے مد میں خرچ کرنے کا مطالبہ حکومت کو تسلیم کرلینا چاہئے۔ ابھی کل 4.4 فیصد جی ڈی پی کا خرچ ہوتا ہے جس میں مرکزی حکومت کا خرچ 0.4 فیصد ہے۔ا س طرح مرکزی حکومت تعلیم میں اخراجات سے پیچھے ہٹتی جارہی ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ عوام کو بیدار کریں اور تعلیم کے بجٹ کو بڑھانے کی مہم چلائیں۔“۔مرکزی تعلیمی بورڈ کی جانب سے منعقدہ اس ورکشاپ میں ملک کی مختلف ریاستوں سے شریک نمائندوں نے دلچسپی لی اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔