نئی دہلی :(ایجنسی)
عدالت نے بالغ بیٹی کی گزارہ بھتہ کی درخواست منظور کر لی۔ عدالت نے باپ سے کہا ہے کہ بیٹی کو دس ہزار روپے بطور کفالت ادا کریں۔ عدالت نے باپ کی اس دلیل کو خارج کردی کہ بیٹی بالغ ہے، اب وہ گزارہ بھتہ مانگنے کا حق نہیں رکھتی۔
ککڑڈوما کورٹ کی فیملی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون کے مطابق بیٹی نہ صرف بالغ ہونے تک بلکہ شادی سے پہلے تک اپنے تمام اخراجات باپ سے لے سکتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر باپ یہ کہے کہ وہ مالی طور پر کمزور ہے اور بیٹی کو کفالت نہیں دے سکتا تو بیٹی باپ کی حیثیت کے مطابق کفالت کی حقدار ہوگی۔
اعلیٰ تعلیم کا خرچہ بھی باپ برداشت کرے گا:
اس معاملے میں 19 سالہ بیٹی نے عدالت کے سامنے باپ سے اعلیٰ تعلیم کے اخراجات ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ باپ پیشے کے اعتبار سے تاجر ہیں لیکن بیٹی کے بالغ ہونے کی وجہ سے تعلیم کے اخراجات اٹھانے کو بھی تیار نہیں تھا۔ باپ کا کہنا تھا کہ وہ بچپن سے ہی اپنی والدہ کے ساتھ ہے، اس لیے اگر بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ جس پر عدالت نے باپ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ باپ بچوں کے لیے چھت کی طرح ہوتا ہے۔ بے شک بیٹی الگ رہ رہی ہے لیکن اگر باپ بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اسے یہ فرض ادا کرنا ہوگا۔ عدالت نے باپ کو بیٹی کی اعلیٰ تعلیم کے تمام اخراجات برداشت کرنے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ ایک 19 سالہ لڑکی کی ماں اور باپ سات سال قبل طلاق ہو گئی تھی۔ باپ نے دوسری شادی کر لی ہے۔ماں ایک پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر ہے۔ لڑکی نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ماں کی تنخواہ سے وہ بمشکل گھر چلا پاتی ہے جب کہ اس کے والد بزنس مین ہیں۔ ان کی ماہانہ آمدنی بھی تین لاکھ روپے سے زیادہ ہے لیکن وہ اخراجات ادا نہیں کر رہے۔
عدالت نے کہا کہ بیٹی کے لیے قانون خاص طور پر یہ کہتا ہے کہ بیٹی اس وقت تک باپ کی ذمہ داری ہے جب تک کہ وہ اپنے اخراجات خود اٹھانے کے قابل نہ ہو جائے۔ شادی کے بعد یہ ذمہ داری خود بخود اس کے شوہر پر منتقل ہو جاتی ہے۔ اس سے پہلے باپ کسی بھی حالت میں بیٹی کے اخراجات برداشت کرنے سے بچ نہیں سکتا۔
15لاکھ کا ٹرن اوور پھر بھی آنا کانی
باپ کی جانب سے عدالت میں داخل کیے گئے حلف نامے میں یہ بھی مانا گیا ہے کہ ان کا سالانہ ٹرن اوور 15 لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ باپ کی مالی حالت بہتر ہونے کے باوجود وہ اپنی بیٹی پر خرچ کرنے سے آنا کانی کررہا تھا۔ ایسے میں تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے والد کو بیٹی کی کفالت سمیت اس کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کا حکم دیا ہے۔