گوہاٹی :(ایجنسی)
اس وقت آسام کے ناگون میں چار دن قبل مبینہ طور پر پولیس حراست میں ایک نوجوان کی موت اور مشتعل ہجوم کے ذریعہ پولیس اسٹیشن کو آگ لگانے کے بعد حالات پرسکون ہیں۔ پچھلے تین چار دنوں میں سلونا بوری گاؤں میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے ساتھ بہت کچھ ہوا ہے۔ اس کا ثبوت وہ دستاویزات اور گھریلو سامان ہیں جو تالاب کے کنارے سوکھنے کے لیے رکھے گئے تھے جہاں سے انہیں نکالا گیا تھا۔ ایک اور ثبوت گاؤں سے بڑوں کا غائب ہونا ہے۔
آسام پولیس نے اعلان کیا ہے کہ وہ پولیس اسٹیشن میں آگ لگانے والے مشتبہ لوگوں میں سے کچھ کو یو اے پی اے کےتحت مقدمہ درج کرے گی۔ یو اے پی اے ایک ایکٹ ہے جو دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اتوار کی صبح سلونابوری میں بلڈوزرپہنچے اور پیر تک درج کرائے گئے تمام لوگوں کے مکانات کو گرا دیا۔ ضلع پولیس نے کہا کہ آتش زنی کے معاملے کے علاوہ، وہ UAPA کے تحت گرفتار کیے گئے لوگوںپر ’جہادی گروپوں‘ کے مشتبہ دہشت گرد روابط کے لیے معاملہ درج کریں گے۔
گاؤں کے حالات یہ ہیں کہ کئی خواتین بھی گھر چھوڑ کر بھاگ گئی ہیں۔بلڈوزرسے توڑی گئی جھونپڑیوں کےدرمیان وہاں کچھ بچے وہاں ملے جن میں سے13 سال کی ایک بچی بھی تھی ۔ بچی کے مطابق، وہ جانتی ہے کہ جب اس کے چچا کی مبینہ تحویل میں موت پر غصے میں گاؤں والوں کو تھانے پر حملہ کرنے پر اکسایا تو کچھ ایسا ہوا ہے جس کا پتہ نہیں چل سکتاہے۔
تاہم، وہ ووٹر کارڈ اور پیدائشی سرٹیفکیٹ سمیت کچھ خاندانی دستاویزات بازیافت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہے: ’’ہاں، میرے والد کو سزا ملنی چاہیے، انھوں نے ایک تھانے کو جلا دیا… لیکن میں نے کیا کیا؟ میری ماں نے کیا کیا؟ انہوں نے ہمارے گھروں میں گھس کر میری کتابیں کیوں پھینک دیں؟
واضح رہے کہ ہفتہ کو مشتعل ہجوم نے ایک پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کر دیاتھا، جس میں الزام لگایا گیا کہ ایک شخص، محفوظ الاسلام، کی پولیس حراست میں موت ہو گئی۔ اس شخص کی موت کے بعد مشتعل ہجوم نے تھانے پر دھاوا بول کر اسے جلا دیا۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے ملزمان کے گھروں پر بلڈوزر چلانا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی ڈی جی پی کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ کارروائی کا ردعمل نہیں ہے، بلکہ اس میں کچھ اور بھی ہے۔
پولیس حکام نے بتایا کہ اتوار کی صبح ٹیم بلڈوزر کے ساتھ تھانے سے چھ کلومیٹر دور گاؤں پہنچی۔ وہاں ملزمان کے گھروں کو نشان زد کر کے مسمار کر دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ آتش زنی میں ملوث عناصر کے خلاف مزید سخت کارروائی کریں گے۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے- ’اگرچہ ہم کسی بھی پولیس اہلکار قصوروار کو نہیں چھوڑیں گے، لیکن ہم ان عناصر کے خلاف اور بھی سخت کارروائی کریں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پولیس اسٹیشنوں کو جلا کر ہندوستانی نظام انصاف سے بچ سکتے ہیں۔ ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
واقعے کے بعد، مقتول محفوظ الاسلام کی اہلیہ اور اس کی 13 سالہ بیٹی، اس کے دو بھائیوں اور دو دیگر رشتہ داروں سمیت چھ افراد کو پولیس نے آتش زنی کے الزام میں حراست میں لے لیا۔
تشدد کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، مبینہ حراستی موت کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا، اور بٹا دروا پولیس اسٹیشن کے افسر انچارج کو معطل کر دیا گیا تھا، ان کی ٹیم کو ’ریزرو کلوز‘پر رکھا گیا تھا۔