لکھنؤ :(ایجنسی)
لکھنؤ یونیورسٹی میں ہندی کے معروف پروفیسر اور دلت مفکر ڈاکٹر روی کانت کی حمایت میں ملک بھر سے 500 سے زیادہ ماہرین تعلیم اور کارکن سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے ڈاکٹر روی کانت پر ’حملے‘ کی مذمت کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر روی کانت کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کو واپس لیا جائے اور ان پر اور اے بی وی پی کے کارکنوں پر ’حملہ‘ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
بدھ کے روز ایک بیان میں، انہوں نے کہا کہ ’وہ حکمراں بی جے پی کے ساتھ مل کر بیشتر تعلیمی اداروں کے عہدیداروں اور ہندوتوا کارکنوں کے ذریعہ ملک بھر میں ماہرین تعلیم پر حملوں سے پریشان ہیں۔‘ ان کا ماننا ہے کہ ڈاکٹر روی کانت پر حملہ تعلیمی آزادی کے بنیادی اصولوں پر حملہ ہے۔ ان بنیادی باتوں میں تنقیدی سوچ، سوال کرنے کا کلچر، اور ایسے خیالات شامل ہیں جو مرکزی دھارے کے بیانیے کے خلاف ہیں۔
ستیہ ہندی ڈاٹ کام کی خبر کے مطابق روی کانت کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی کے حکام پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ 10 مئی کے حملے کے مجرموں کو گرفتار کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کارروائی سے’ان لوگوں کو واضح پیغام جائے گا جو اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ انہوں نے یونیورسٹی اور اتر پردیش حکومت کے افسران سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر روی کانت اور ان کے پریوار کو تحفظ فراہم کیا جائے اور مزید ہراساں کرنا یا دھمکیاں دینا بند کیا جائے۔
مشترکہ بیان میں دستخط کرنے والوں میں نامور آر ٹی آئی کارکن ارونا رائے، اسکالر اور مصنف پروفیسررام گوہا، پروفیسر اپوروانند، مصنف دلیپ مینن، سوریہ کانت چودھری، ڈاکٹر نندیتا نارائن، اے آر وساوی، آدتیہ نگم، تھیٹر کی شخصیت مایا کرشنا راؤ، انسانی حقوق کے معروف کارکن فادر سیڈرک پرکاش، وی سریش، شبنم ہاشمی، آکار پٹیل اور دیگرشامل ہیں ۔
انہوں نے بیان میں کہا ہے کہ ’ ہم ماہرین تعلیم اور کارکنوں کا ایک گروپ ہیں جو 10 مئی 2022 کو لکھنؤ یونیورسٹی کے کیمپس میں ہندی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور معروف دلت نظریات کے ماہر ڈاکٹر روی کانت کی عوامی ہیکلنگ اور دھمکیوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔‘
انہوں نے بیان میں کہا کہ مشتعل نعرے لگانے کے علاوہ مشتعل ہجوم نے ڈاکٹر روی کانت کو مبینہ طور پر دھمکیاں دیں۔ ڈاکٹر روی کانت کو کئی گھنٹوں تک پراکٹر کے دفتر میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا۔
انہوں نے بیان میں کہا کہ یہ مبینہ طور پر وارانسی میں گیان واپی مسجد کے بارے میں آن لائن چینل ستیہ ہندی پر ایک مباحثے میں ڈاکٹر روی کانت کے ریمارکس کے خلاف ایک ’احتجاج‘ تھا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چینل پر بحث کے دوران روی کانت نے مجاہد آزادی پتابھیمسیتارامیا کی کتاب ’فیدرز اینڈ سٹونز‘ کی ایک کہانی کا حوالہ دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر روی کانت نے حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دینے میں احتیاط برتی کہ اس بیانیہ کو صرف ایک ’کہانی ‘ ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے مصنف نے حمایت میں کسی ذرائع کا حوالہ نہیں دیا۔ اس کے باوجود، ان تبصروں کے چوبیس گھنٹے سے بھی کم عرصے کے بعد، ان کے تبصروں کا ایک بدنیتی سے ترمیم شدہ اقتباس آن لائن گردش کر دیا گیا، بیان میں مزید کہا گیا۔ اگلی صبح تک پرتشدد احتجاج ہوا اور ڈاکٹر روی کانت کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے، ’ڈاکٹر روی کانت کے پراکٹر کے دفتر سے نکلنے اور گھر واپس آنے کے بعد، یہ چرچا ہے کہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔‘ اے بی وی پی کے رکن امن دوبے کی شکایت پر لکھنؤ پولیس نے ان کے خلاف حسن گنج پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں اختلاف رائے پر تشدد اور دھمکیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ ڈاکٹر روی کانت کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
بتاتے چلیں کہ پروفیسروں، مصنّفین اور صحافیوں نے اس سے قبل اے بی وی پی سے وابستہ لوگوں کی طرف سے ڈاکٹر روی کانت کو دی جانے والی مبینہ دھمکیوں کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے تھے۔ کم از کم 60 ایسے پروفیسروں، مصنّفین اور صحافیوں نے ایک کھلا خط لکھا جس میں انہوں نے روی کانت کو دی جانے والی سرعام جان سے مارنے کی دھمکیوں اور بدسلوکی کی مذمت کی ہے۔