تحریر :مسیح الزماں انصاری
20 دسمبر 2019 کو وزیر اعظم مودی کے پارلیمانی حلقہ بنارس میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف نکالی گئی ریلی میں پولیس کے لاٹھی چارج میں 15 سالہ تنویر بری طرح زخمی ہو گیا تھا، جو طویل عرصے علاج کے بعد بھی بحال نہیں ہو سکا ہے۔ ڈاکٹر کے دعوے کے مطابق تنویر کا دماغ کمزور ہو چکا ہے۔
تنویر کسی مظاہرے کا حصہ نہیں تھا، پھر بھی پولیس نے اسے گلی میں پکڑ کر بری طرح مارا۔ اہل خانہ کے مطابق سر کا حصہ دو ٹکڑے ہو کر ایک طرف جھول گیا تھا۔ 55 ٹانکے لگے تھے اور اب تک علاج جاری ہے۔
تنویر کا خاندان مالی طور پر کمزور ہے، والد سلیم ساڑھی بننے کا کام کرتے ہیں اور علاج پر لاکھوں روپے خرچ کر چکے ہیں۔ تنویر کے والد نے بتایا کہ انہیں کوئی سرکاری مدد نہیں ملی ہے۔واقعہ کے دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود لواحقین نے اس واقعہ کے حوالے سے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا۔
تنویر اپنے 4 بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔ اس کے دو چھوٹے بھائی اور ایک چھوٹی بہن ہے۔
تنویر کے والد سلیم نے کہا کہ پچھلے دو سالوں میں ہم نے بیٹے کے علاج پر 3 لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق میرے بیٹے کا دماغ زیادہ چوٹ لگنے سے کمزور ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’’میرا بیٹا اب نارمل بھی نہیں رہتا، وہ بہت چڑچڑا ہو گیا ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ چوٹ کی وجہ سے دماغ سکڑ گیا ہے۔‘‘انہوں نے کہا، ’’تنویر کو تقریباً ایک ماہ تک ٹراما سینٹر میں رکھنا پڑا۔ حالت بہت نازک تھی۔ بس اوپر والے نے اسے کسی طرح بچایا۔‘‘
حیرت کی بات یہ ہے کہ تنویر کسی مظاہرے کا حصہ نہیں تھا، اس کے باوجود اس کی مسلم شناخت کی وجہ سے اسے پولیس نے بے دردی سے مارا ، جس کی وجہ سے تنویر کے ساتھ ساتھ اہل خانہ دو سال سے علاج کی وجہ سے مالی بحران کا شکار ہے۔
اہل خانہ نے کہا، ’’جب ہم زخمیوں کو اٹھا رہے تھے تو میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا جو لہولہان پڑاتھا۔ جب ہم اسے ٹراما سینٹر لے گئے تو ہم نے اس کے بچنے کی تمام امیدیں کھو چکے تھے‘‘
بجرڈیہا کے ایک بزرگ نے بتایا کہ ’’پولیس والے چھوٹے بچوں کو بھی بہت بری طرح سے پیٹ رہے تھے۔ پولیس نے 8، 10 اور 15 سال تک کی عمر کے بچوں کو نشانہ بنایا جو احتجاج کا حصہ نہیں تھے۔‘‘ پولیس نے ایسے کئی بچوں کو مار ا جو سامان لینے گھر سے باہر نکلے تھے اور لاٹھی چارج میں افراتفری کی وجہ سے گھر نہ پہنچ سکے اور پولیس نے انہیں نشانہ بنایا۔
بجرڈیہا میں آٹھ سالہ صغیر کی موت اور پندرہ سالہ تنویر کا پولیس حملے میں شدید زخمی ہونا بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ پولیس نے بچوں کو مارا اور نشانہ بنایا۔
تنویر کے متاثرہ اہل خانہ نے بتایا کہ ’لاک ڈاؤن میں کام بند ہو گیا، پھر کورونا کی دو لہروں میں پریوار مالی طور پر بہت کمزور ہو گیا۔ اس میں علاج کا خرچہ برداشت کرنا بھی بہت مشکل تھا۔‘
بنارس کے بجرڈیہا میں شہریت قانون کے خلاف نکالی گئی ریلی پر پولیس کی بربریت کی درجنوں کہانیاں ہیں، جو کہیں درج بھی نہیں ہوسکیں۔ بجرڈیہا میں پولیس کے لاٹھی چارج میں ایک کی موت اور درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے۔
کچھ زخمی طویل علاج کے باعث مالی طور پر کمزور ہوگئے، کچھ علاج کے بعد بھی زندہ نہ رہ سکے جو بعد میں دم توڑ گئے۔ کچھ ابھی تک پولیس کے مبینہ فرضی کیس سے پریشانی میں ہیں۔
تنویر عالم کے والد محمد سلیم نے بتایا کہ، ’پولیس کے لاٹھی چارج میں میرے بیٹے کو چوٹ لگی اور گہرا زخم لگا۔ تنویر بھی مظاہرے میں شامل نہیں تھا، وہ ایک چھوٹے بچے کو گود میں لیے گھر کے سامنے نکلا تھا، جس کے بعد پولیس کے لاٹھی چارج میں زخمی ہوگیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ لاٹھی چارج کے بعد ہمیں کوئی اطلاع نہیں تھی کہ یہ باہر ہے۔ ہم زخمیوں کو گھر میں لے جا رہے تھے جن میں سے کچھ بے ہوش اور کچھ کے خون بہہ رہے تھے۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ’’ریلی نکالنے کے بعد مظاہرے پرامن طریقے سے جاری تھے کہ اچانک پولیس نے حملہ کر دیا‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’’20 دسمبر 2019 کو سیکڑوں لوگ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے گھروں سے نکل آئے تھے۔ جمعے کا دن تھا، شام چار بجے کے قریب لوگ سڑک کی طرف بڑھ رہے تھے کہ پولیس نے لاٹھی چارج کردیا۔‘‘
سی اے اے تحریک کے دوران بنارس کے بجرڈیہا میں پولیس کے لاٹھی چارج میں صغیر نامی ایک 8 سالہ لڑکے کی بھی موت ہوگئی تھی۔
پولیس نے سڑک کو گھیرے میں لے کر مظاہرین پر حملہ کیا
مقامی لوگوں نےالزام لگایا کہ،’پولیس نے سڑک کو دونوں اطراف سے گھیر لیا اور اس پر ’حملہ‘ کردیا جبکہ مظاہرین پرامن احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔‘
بجرڈیہا کے لوگوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ’’پرامن مظاہرے پر لاٹھی چارج کرنے والے کچھ لوگوں کا تعلق پولیس سے نہیں بلکہ کسی اور تنظیم سے تھا۔‘‘لوگوں نے بتایا کہ ’’مظاہرین کو بھاگنے کا موقع نہیں دیا گیا جس میں کئی لوگ زخمی ہوگئے‘‘۔
پولیس پر سی سی ٹی وی کیمرہ توڑنے کا الزام
بجرڈیہا کے ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ لاٹھی چارج کے بعد پولیس نے ان گھروں کو نشانہ بنایا جہاں سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے۔
ایک نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’رات کی تاریکی میں پولیس نے لوگوں کے گھروںمیں بانس کی سیڑھیوں کےسہارے چڑھ کر گھر میں داخل ہوئی اور جن گھروںمیں سی سی ٹی وی فوٹیج موجود تھے اسے اپنے ساتھ لے گئی یا ریکارڈ ڈیلیٹ کرایا اورتوڑ دیا۔‘‘
پولیس کی بربریت کے ثبوت تلف کر دیے گئے
ایک نوجوان نے بتایا کہ بہت سے لوگوں نے پولیس کی بربریت کی ویڈیو بنائی تھی جس میں یہ صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ کس طرح پولیس نے پرامن مظاہروں پر حملہ کر کے لوگوں کا خون بہایا، اس لیے پولیس ثبوتوں کو تباہ کرنے کے لیے لوگوں پر دباؤ بنا کر ویڈیو اور سی سی ٹی وی ریکارڈ ڈیلیٹ کروایا رہی تھی ۔
ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ،گلیوں اور سڑکوں پر نصب سی سی ٹی وی کیمرے بھی پولیس نے توڑ دیے اور جن لوگوں کے موبائلوں میں پولیس کی بربریت کی ویڈیوز موجود تھیں، انہیں ڈیلیٹ کر دیا۔
(بشکریہ indiatomorrow.net)