نئی دہلی :(ایجنسی)
کانگریس کے سینئر لیڈر اور مصنف سلمان خورشید ان دنوں اپنی کتاب ‘’سن رائز اوور ایودھیا: نیشن ہڈ ان اوور ٹائمس‘ کو لے کر تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے لے کر ان کے گھروں میں آگ لگانے تک یہ سب کچھ کیا گیا ہے۔ سلمان خورشید نے بھی کتاب کے تنازع کے حوالے سے اپنا موقف رکھا ہے۔
سلمان خورشید کی نئی کتاب ’سن رائز اوور ایودھیا: نیشن ہڈ ان اوور ٹائمس‘ کے ایک حصے پر تنازع ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’سناتن دھرم اور کلاسیکل ہندوازم جوسنتوں کے لیے جانا جاتا ہے، ہندوتوا کی ایک غیر مہذب طور سے ایک طرف دھکیلا جارہا ہے۔‘ تمام معیارات، حالیہ برسوں میں آئی ایس آئی ایس اور بوکو حرام جیسے گروپوں کے ذریعہ جہادی اسلام کا سیاسی ورژن۔
ان سطور کو لے کر سلمان خورشید پرنشانہ سادھا جانے لگا۔ خورشید کے خلاف ایف آئی آر درج کر ائی گئی ہے۔ نینی تال میں ان کے گھر پر پتھراؤ اور آتش زنی کے واقعات بھی ہوئے۔ سلمان خورشید کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی نے کہا کہ خورشید کے اس ریمارک سے ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔
انڈین ایکسپریس میں اپنے کالم کے ذریعے سلمان خورشید نے لکھا ہے کہ 300 سے زائد صفحات کی اس پوری کتاب میں میں نے ایودھیا فیصلے کی تائید اور حمایت ہی کی۔ کچھ قانونی ساتھیوں نے اس کی قانونی درستگی پر شک بھی کیا تھا، لیکن اس کے باوجود، میں نے اس میں ہندو مذہب کے فلسفے کو قبول کیا اور سناتن دھرم کی تعریف کرتے ہوئے اس کی انسانی جہتوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔
اس کتاب میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایودھیا فیصلے کے بارے میں پرانی تلخ یادوں کو بھلا کر مشترکہ مستقبل کے لیے مواقع تلاش کرنے کی بات کی گئی ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سب پر قومی میڈیا اور حکمران جماعت کے ارکان کی طرف سے بہت کم توجہ دی گئی۔ ان تمام باتوں کو ایک طرف چھوڑ کر انہوں نےچھٹے باب کے ایک واقعہ پر طول دیا۔جس میں ہندتوا اورہندو دھرم کے درمیان فرق کو بتایا گیا ہے۔اس میں لکھای ہے:’ ’ سناتن دھرم اورکلاسیکل ہندوتوا جو سنتوں کے لیے جانا جاتا ہے،ہندو کےایک غیرمہذب طور سے ایک طرف دھکیلا جا رہاہے ۔ تمام معیارات پر حال کے کچھ برسوںمیں آئی ایس آئی ایس اوربوکرحرام جیسے گروپ کے جہادی اسلامی کی طرح سیاسی ورژن ہے ۔‘‘