عبدالسلام عاصم
جیسے جیسے اسمبلی انتخابات کی آخری پولنگ کا دن اور ایگزٹ پول کا وقت قریب آ رہا ہے، مغربی بنگال میں الیکشن کے ممکنہ نتائج کے تعلق سے تجسس، دعوے اور پیشن گوئی کی جگہ واضح امکانات اور اندیشے ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔
فون پر احباب سے گفتگو میں کورونا کی دوسری لہر کے خدشے پر بہت کم اور ترنمول کانگریس اور بی جے پی میں سے کون بر سر اقتدار آ رہی ہے! اس پر زیادہ مغز ماری کی جارہی ہے۔اب تک اخباری اور غیر اخباری دوستوں سے جتنی باتیں ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممتا بنرجی کو بحال دیکھنے کے خواہشمند جہاں اندیشوں میں گھرے ہوئے ہیں وہیں پریورتن کا سہرا بی جے پی کے سر دیکھنے کے خواہاں حلقے جو فرقہ وارانہ لائن کے دونوں طرف ہیں، صرف روشن امکانات کی باتیں کر رہے ہیں۔
ان دونوں حلقوں کی باتوں میں جوش کے ملے جلے جذبے سے ہٹ کر ہوش کی ایک بات مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں کو یہ جاری الیکشن قومی منظر نامے میں کسی نہ کسی طور سے تبدیلی کا نقیب نظر آ رہا ہے۔ بی جے پی کی وکالت کرنے والوں کا خیال ہے کہ اگر بنگال میں ان کی خواہش کے مطابق تبدیلی آتی ہے تو کل ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی قومی سیاست کا رنگ نظر آئے گا۔ دوسری طرف ترنمول حلقوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی زبردست انتخابی مہم کے باوجود ممتا بنرجی کی قیادت میں پارٹی نے دو سو سے زیادہ سیٹیں جیت لیں تو سمجھ لیا جانا چاہئے کہ کسانوں کی تحریک نے ملک میں کارپوریٹ سیاست کو بے نقاب کر دیا ہے۔بائیں بازو کی پارٹیوں اور کانگریس کے حلقے بظاہر امید کا دامن نہ چھوڑنے کی حد تک محدود ہیں۔
نتائج کیا ہوں گے! اس کیلئے بہر حال دو مئی تک انتظار کرنا ہو گا۔ابھی چار مرحلے باقی ہیں۔ اِس دوران آخری بازی میں کس کا پلہ بھاری رہتا ہے! اِس امر کا بھی مجموعی نتائج پر گہرا اثر پڑے گا خواہ ممتا معمولی اکثریت سے اپنی کشتی انتخابی بھنور سے نکال لیں یا بی جے پی (ایک حد تک ہی سہی) منظر نامے کو بدل دے۔ باوجودیکہ ممتا کی معمولی اکثریت پر بی جے پی کی کسی بھی نوعیت کی جیت بھاری پڑے گی کیونکہ اس جیت کا نام پریورتن ہوگا۔
اِس رخ پر چلئے دو مئی میں تک انتظار کرتے ہیں۔ترقی پذیر ملکوں کی انتخابی سیاست ترقی یافتہ ملکوں سے الگ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود امریکی انتخابی نتائج نے پوری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ اتنی جلدی تبدیلی کے وہاں بھی آثار نہیں تھے۔ اطلاعاتی تکنالوجی نے واقعی رفتار زمانہ کو بھی برقی پر لگا دیئے ہیں۔ دہائیوں میں آنے والی تبدیلی اب برسوں میں ظہود پذیر ہونے لگی ہے۔
ہندستان کی انتخابی سیاست بہر حال اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہاں مقابلہ اب یمینی اور یساری سیاست کے بیچ محدود نہیں رہا۔ اس کی جگہ ایک نئے محدود دائرے نے لے لی ہے۔ مفادات کئی رنگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو سرخ، زعفرانی اور سبز نہیں۔ ایک رنگ بھڑکائے ہوئے جذبے کے استحصال کا بھی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو بنگال میں بائیں بازو کی سیاست تین دہائیوں پر محیط نہیں ہوتی اور سابقہ عام انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی چونکانے کی حد تک بہتر نہیں ہوتی۔
جہاں تک فرقہ وارانہ سیاست کا تعلق ہے تو اس معاملے میں سب کے دامن داغداد ہیں۔ اقلیتی ووٹ بینک سے اکثریت کے ووٹ بینک تک ہندستان کا انتخابی سفر نہ سیکولرزم کے کسی تقاضے کا آئینہ دار ہے نہ ہی اس میں کوئی مذہبی خوبی نظر آتی ہے۔ حالانکہ سیکولرزم بظاہر رواداری سکھاتی ہے اور دنیا کے تمام مذاہب نصابی طور پر نیکی اور سچائی کا ہی پیغام دیتے ہیں۔
انتخابی سیاست کے موجودہ منظر نامے میں قسمت آزما بی جے پی بنگال میں ایک نووارد کی حیثیت ضرور رکھتی ہے لیکن اپنی سوچ کے لحاظ سے وہ اجنبی نہیں۔ دوسری طرف ریاستی یا قومی انتخابات میں کسی بھی پارٹی یا اتحاد کی پہلی جیت کا اکثر بڑا انحصار عوام کی حکومت بیزاری یعنی مخالفانہ ووٹوں پر ہوتا ہے۔حکومت بیزاری کو کیش کرنے کی ملک مین ایک سے زیادہ حکمت عملیاں تیار کی گئیں لیکن دوسرے کے ہتھیار کو تیسرے طریقے سے استعمال کرنے کا جو ہنر بی جے پی نے دکھا یا ہے اس کی سر دست دوٹوک کاٹ نظر نہیں آتی۔ اقلیتی ووٹ بینک والے تو جیسے اپنی اس حکمت عملی کی ساری ترتیبیں بھول گئے ہیں ۔ غلطی سے کبھی ایک آدھ جملہ بھی کسی کے منھ سے نکال جاتا ہے تو ہزاروں توبہ کی اکثریت رُخی نمائش شروع کر دی جاتی ہے۔
ایسے میں اگر بی جے پی بنگال میں بر سر اقتدار آ جاتی ہے یعنی اسمبلی الیکشن جیت جاتی ہے تو اسے اس تبدیلی کو تادیر انجوائے کرنے کیلئے جذباتی انتخابی وعدوں کی پاسداری سے زیادہ ریاست میں صنعتی ترقی اور عصری اقتصادی انقلاب کے ساتھ نوکریوں کے لئے حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ یہی وہ تکونا محاذ ہے جس پر بائیں بازو کا ناکامی کو ترنمول رہنما ممتا بنرجی نے کیش کیا تھا۔اسٹارٹ اپ کاروبار کی رونق زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہتی اگر پروڈکشن کے محاذ پر اشتہارکا حق ادا نہیں کیا گیا ۔ ترنمول بیزاری کی ریاست میں جہاں بھی اور جتنی بھی لہر ہے وہ اسی عدم مطابقت کا شاخسانہ ہے۔
ترنمول نے اپنی اس کامیابی کا کتنا حق ادا کیا اس کے کاغذی دستاویزات تو موجود ہیں جن کے ذریعہ عام طور پر انتخابی تبلیغ کا کام لیا جاتا ہے، لیکن اس سے زیادہ بھنانے کی چیز عام ووٹروں کے احساسات اور جذبات ہوتے ہیں جو اس موقع پر بڑی سچی گواہی دیتے ہیں۔ یہی دونوں ایسی چیزیں ہیں، جن کے حوالے سے انقلابی تبدیلی کی بات کرنے والے عوام کے حق میں نہ سہی، اپنے حق میں انقلاب لانے میں ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں۔
دیکھنا ہے ممتا کی دفاعی لائن اور بی جے پی کی فارورڈ لائن میں سے بالترتب کس کی یلغار کی طاقت اور کس کی قوت مدافعت کامیاب ہوتی ہے۔ کانگریس اور بائیں بازو کے مڈل آرڈر کے کھلاڑی بظاہر سیاسی میچ کے رخ کو دیکھ کر موو بنائیں گے اور دونوں طرف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کاجہاں تک تعلق ہے تو ان کا استعمال میں شروع نہیں ہوا ۔ یہ سلسل اگر نئے نظم کا حصہ ہوتا تو اس کے غلط استعمال پر جو طوفان سابقہ کئی موقعوں سے اٹھ رہاہے اس میں بہت کچھ بہہ گیا ہوتا۔یہ سلسلہ دہائیوں پر محیط ہے۔ماضی میں بھی اس مشین کے بے نقص ہونے پر اعتراض کیا گیا تھا ۔بی جے پی رہنما سبرامانیم سوامی نے ایک مرحلے میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس مشین کے عمل کی ایک کاغذی سند بھی ساتھ ساتھ نکلنا چاہئے جسے ووٹنگ مکمل ہونے پر متعلقہ مشین سے منسلک ایک بکس میں الگ سے سر بمہر کر دیا جائے۔اس تجویز کو سابقہ حکومتوں نے کیوں قابل اعتنا نہیں سمجھا اس بابت کہیں کوئی تشفی بخش جواب موجود نہیں۔رہ گئی بات پولنگ میں ہیرا پھیری کی تو کاغذ سے مشین تک اس سلسلے کو ہم لوگ ہی دراز کرتے آئے ہیں۔زندگی کے ایک سے زیادہ تکلیف دہ رُخ پر موجودہ حرکت پذیر نسل کے خالق ہم ہی ہیں۔