تحریر:کلیم الحفیظ
اردویا اقلیتی اداروں کی تباہی پر خاموش تماشائی بنے رہنا خود کو مزید بڑی مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہے
ملک کی پہلے جنگ آزادی 1857 ؍ کی ناکامی اور شکست و ریخت کے بعد جو سیاسی ، سماجی، تعلیمی و تہذیبی ، اقتصادی بحران پیدا ہوا تھا اس کے خلاف منظم طریقہ سے آواز بلند کی گئی تھی ، حالانکہ اس وقت بھی ملک و ملت کا ایک بڑا طبقہ غلط فہمی کا شکار تھا ۔انگریزوں کی غلامی کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھا تھا تاہم سر سید احمد خاں جیسے کچھ سمجھدار اور ذمہ دار لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک منصوبہ کے تحت تحریک شروع کی ۔قربانیاں پیش کیں جس کے نتیجہ میں باقاعدہ جنگ آزادی کی تحریک وجود میں آئی اور پھر 1947 ؍میں ملک انگریزوں سے آزاد ہوگیا۔
اس پوری تحریک اور جد و جہد کے پورے سفر میں اردو زبان و ادب کا جو کردار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔اردو کے صحافیوں ، ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں اور علمائے کرام نے جو قربانیاں پیش کی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ آج ملک کے جو حالات ہیں ، ملک جس بحران کا شکار ہے ۔ملک کا مسلمان جس شکست و ریخت سے دو چار ہے ۔ سیاسی ، سماجی ، اقتصادی ، لسانی ، ادبی و ثقافتی ، تعلیمی و تدریسی اعتبار سے جس پسماندگی سے دوچار ہے وہ 1857؍ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے کم نہیں بلکہ زیادہ تشویشناک ہے۔
اُس وقت باہری لوگوں سے مقابلہ تھا لیکن آج اپنے لوگوں سے مقابلہ ہے ۔ان سے مقابلہ ہے جو ملک کو پھر غلام بنانے کی سازشیں کر رہے ہیں ،جو ہندو راشٹر کے نام پر ملک کو فروخت کر رہے ہیں ۔ جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر رہے ہیں۔ تاریخ و تہذیب بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہمارا ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کے لیے پوری دنیا میں مشہور و مقبول ہے اور اس تہذیب کو فروغ دینے میں اردو زبان کا اہم کردار ہے ۔آزاد ی کے ساتھ ساتھ جب ملک تقسیم ہوا تو اس کی زد میں ملت کے ساتھ اردو زبان بھی آئی ۔حالانکہ جو تعلیم یافتہ طبقہ تھا وہ سمجھ رہا تھا کہ ملک کی تقسیم میں نہ تو مسلمانوں کا کوئی رول ہے اور نہ اردو زبان کا لیکن فرقہ پرست طاقتیں ، بطور خاص آر ایس ایس اس بات کو خاموشی کے ساتھ اکثریتی طبقہ میں پھیلاتی رہی کہ اس کے لیے اردو اور مسلمان دونوں ذمہ دار ہیں۔ چنانچہ اردو اور مسلمان دونوں کے خلاف نفرت کی مہم چلائی گئی ۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی موقع ملا تو فرقہ پرستوں کی جانب سے مسلمانوں اور اردو زبان کو پاکستانی قرار دے دیا جاتا رہا ہے ۔جن طاقتوں کی جانب سے مسلمانوں اور اردو زبان پر الزام عائد کیا جاتا تھا ان کے خلاف نام نہاد سیکولر حکومتوں نے کبھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ملک کے جو بڑے ادبی مراکز تھے وہ زوال پذیر ہو گئے ۔پرائمری کی سطح پر بطور لازمی مضمون اردو پڑھائی جارہی تھی اس کو ختم کر دیا گیا ۔اردو میڈیم اسکولوں کو بند کر دیا گیا ۔اس کے خلاف آواز بھی بلند ہوئی لیکن حکومت میں شامل مسلم رہنمائوں کی کتنی اہمیت ہوتی ہے ہم سب کو معلوم ہے چنانچہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔
نام نہاد سیکولرزم کی سیاسی مجبوری کہہ لیجئے یا پھر کوئی اور نام آپ دے دیجئے لیکن یہ سچائی ہے کہ اسی کشمکش میں اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے کچھ تعلیم یافتہ لوگوں نے اردو اکادمیوں کی بنیاد رکھی ۔راقم کی نظر میں یہ صرف آنسو پوچھنے والی بات تھی ورنہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پرائمری سطح پر اردو زبان کو بحال کیا جاتا ۔ خیر قومی راجدھانی دہلی سمیت ملک کے کئی صوبوں میں اردو اکادمی کا قیام عمل میں آیا ۔ 31؍مارچ 1981؍ کو دہلی اردو اکادمی کی بنیاد رکھی گئی ۔اس وقت ملک کی وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی تھیں۔یہ وہ موقع تھا جب اندرا گاندھی کو دوسری سیاسی زندگی نصیب ہوئی تھی ۔ اس کے بعد انھیں اردو زبان و ادب کی فکر ہوئی یا یہ کہہ لیں کہ مسلمانوں کی یاد آئی کیونکہ اب مسلمانوں کو سنہری خواب دکھانے والی کچھ مقامی پارٹیاں وجود میں آ رہی تھیں ۔
خیر میں اس کی تفصیل میں اس وقت نہیں جانا چاہتا ،کہنا یہ ہے کہ دہلی اردو اکادمی کا قیام عمل میں آیا اور اگر دیکھا جائے تو اس اکادمی کا سفر بہت اچھا رہا ۔اس اکادمی کو اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے کام کرنے کا موقع ملا لیکن جب سے دہلی میں کجریوال حکومت آئی ہے تب سے دہلی اردو اکادمی کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ۔مسلمانوں کے ووٹ پر حکومت بنانے والی کجریوال حکومت کو نہ تو مسلمانوں کی فکر ہے اور نہ ہی اردو زبان و ادب کی ۔اس کی مسلم اور اردو دشمنی تو بی جے پی سے بھی زیادہ خطرناک معلوم ہوتی ہے ۔دہلی اردو اکادمی جس میں کبھی 40؍ سے زیادہ لوگوں کا اسٹاف تھا ، آج حالت یہ ہے کہ 4؍ سے 6؍ ملازمین ہی اس میں مستقل ملازم ہیں اور یہ بات ہم سنی سنائی نہیں کر رہے ہیں بلکہ اردو اکادمی جاکر ، وہاں کے لوگوں سے ملاقات کرنے کے بعد کہہ رہے ہیں ۔جو وائس چیئرمین ہیں وہ اردو سے بالکل ناواقف ہیں ۔وہ ٹھیک سے اردو کا ایک جملہ بھی نہیں بول سکتے ۔اسی طرح نائب وزیر اعلی جو اکادمی کے چیئرمین ہیں انھیں بھی اردو سے کوئی سروکار نہیں ۔یہی نہیں بلکہ جو اس وقت اکادمی کے آفیسر ہیں انھیں بھی اردو نہیں آتی ۔آخر ایسا کیوں ہے ؟ کیا ہم اردو کے چاہنے والوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس کے لیے متحدہ طور پر آواز بلند کریں ؟ یہ حقیقت ہے کہ اردو زبان کی لڑائی بھی سیاسی لڑائی ہے لیکن سیاسی لڑائی کے لیے بھی تو لوگ چاہئے اور وہ لوگ چاہئے کہ جو اردو سے محبت کرتے ہیں۔
خیر ہماری کوشش کی وجہ سے اب دہلی اردو اکادمی کی جانب سے کچھ اعلانات شروع ہوئے ہیں جو خوش آئند ہیں۔اس کے ساتھ ہی دہلی میں ایک اور اردو کا قومی ادارہ ہے ۔ میری مراد قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل )سے ہے ۔اس کے اغراض و مقاصد اردو اکادمیوں سے ذرا زیادہ وسیع ہیں اور اس کا دائرہ ریاستی نہیں بلکہ قومی ہے جیسا کہ نام سے بھی ظاہر ہو رہا ہے ۔ اس کا قیام یکم اپریل 1995؍ میںعمل میں آیا تھا۔یہ ادارہ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی زبان کے فروغ کے لیے بھی پابند عہد کیا گیا تھا۔اس ادارے نے بھی کافی اچھے کام کیے اور حکومت کی طرف سے اس کے بجٹ میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔آج کی تاریخ میں اس ادارے کا بجٹ قریب 100؍ کروڑ روپے سالانہ ہے ۔اس ادارے نے ملک بھر میں اپنے کمپوٹر سینٹر بھی کھولے جہاں اساتذہ کی تقرری بھی ہوئی ۔ اردو ، فارسی اور عربی کے کورس شروع کیے گئے ، اس کا فائدہ بھی کافی رہا۔
مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھائیوں نے بھی اردو زبان کا مطالعہ کیا ۔کئی دستاویزی کتابوں کی اشاعت بھی عمل میں آئی۔قومی اور بین لاقوامی سمیناروں کا انعقاد کیا گیا۔کلّی اعتبار سے اچھا سفر رہا لیکن جب سے مرکز میں مودی حکومت آئی ہے ،اس ادارے پر تلوار سی لٹک گئی ہے ۔یہی نہیں بلکہ جو بھی اقلیتوں کے ادارے ہیں وہ خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں اور کیوں نہ کریں جبکہ ملک کا 25؍کروڑ مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور کر رہا ہے تو پھر اس سے تعلق رکھنے والے اداروں کا غیر محفوظ ہونا فطری ہے ۔لیکن بات یہ ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ کیا ہم خاموش بیٹھ جائیں گے یا پھر خود کو اور اداروں کو بچانے کے لیے کچھ کریں گے ۔مجھے نہیں لگتا کہ اردو کے اداروں کو بچانے کے لیے اب تک کوئی منظم مہم چلائی گئی ہے ۔اردو اکادمی ہو یا اردو کونسل کیا ان کو بحال کرانے کے لیے کسی نے کوئی کوشش کی ؟ آج دوسری قومیں اپنے اداروں اور اپنے تحفظ کے لیے کوششیں کر رہی ہیں لیکن ملت اسلامیہ ہند خاموش تماشائی معلوم ہورہی ہے ۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے این سی پی یوایل کے لیے بھی آواز بلند کی ہے اور اس کے ڈائریکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد سے ملاقات کرکے اپنی شکایات درج کرائی ہیں لیکن پھر وہی بات ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک کا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے سب کو آگے آنا ہوگا ۔سب کو متحدہ طور پر آواز بلند کرنی ہوگی۔نقصان اور فائدہ سے اوپر اٹھنا ہوگا کیونکہ موجودہ حکومت میں مسلمانوں کا کوئی بھلا ہونے والا ہے یہ خواب غفلت سے زیادہ کچھ نہیں ۔ہم امید کرتے ہیں اپنے اداروں کے تحفظ کے لیے لوگ سرجوڑ کر بیٹھیں گے اور متحدہ طور پر اس کے لیے آواز بلند کریں گے۔ یاد رکھئے کہ یہ ادارے صرف زبان و ادب کے نہیں بلکہ اب ہماری تہذیب وثقافت اور دینیات سے بھی سروکار رکھتے ہیں ۔
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)