نوٹ :گزشتہ روز موہن بھاگوت کے انٹرویو کا ایک حصہ دیا تھا ،کچھ مزید باتیں انہوں نے کہی ہیں جو ہمارے قاری کو جاننا ضروری ہے ،بعض تجزیہ کار اسے 2025اور کچھ ان کی باتوں میں2047تک کا ویژن دیکھ رہے ہیں جب بھارت کی آزادی کو سو سال ہوجاییں گے ،بین السطور بہت کچھ ہے ،اس کے معانی اور گہرائ کو سمجھنے کی ضرورت ہے ادارہ)
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے آر ایس ایس سے وابستہ دی آرگنائزر کو دیےایک انٹرویو میں کہا کہ ہندو سماج تقریباً ہزار سال سے ایک جنگ میں ہے اور لڑنا ہے تو مضبوط ہونا ہی پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھارت کو ہندوستھان بتاتے ہوئے مسلمانوں کو بھی اپنی اصلاح کا درس دیا۔
انہوں نے کہا، ‘ہندو سماج تقریباً ایک ہزار سال سے جنگ میں ہے۔ غیر ملکی لوگ، غیر ملکی اثرات اور غیر ملکی سازشیں، ان سے جنگ جاری ہے۔ سنگھ نے کام کیا ہے، دوسرے لوگوں نے بھی کام کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں کہا ہے۔جس کی وجہ سے ہندو سماج بیدار ہوا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ لڑناہے تو مضبوط ہونا ہی پڑتا ہے
مذہبی متون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ‘اگرچہ (بھگود گیتا میں) کہا گیا ہے کہ امیداور خواہش کو ، میں اور میری انا کے احساس کو ترک کرکے ، اپنی انا کی حدت سے آزاد ہوکر جنگ کرو، لیکن سب لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ لیکن لوگوں نے اس کے بارے میں سماج کوہمارے ذریعےبیدار کیا۔ بیداری کی روایت، اس دن سے چلی آ رہی ہے جب پہلا حملہ آور سکندر ہندوستان آیا تھا
ہندو مذہب، ثقافت اور سماج کی حفاظت کی بات کرتے ہوئے سنگھ کے سربراہ نے کہا، ‘ہندو سماج ابھی بیدار نہیں ہوا ہے۔ یہ لڑائی باہر سے نہیں ہے،یہ لڑائی اندر سے ہے۔ ہندو مذہب، ہندو ثقافت، ہندو سماج کی سلامتی کا سوال ہے، اس کے لیے لڑائی جاری ہے۔ اب غیر ملکی نہیں ہیں، لیکن غیر ملکی اثر و رسوخ ہیں، بیرون ملک سے سازشیں ہورہی ہیں۔ اس لڑائی میں لوگوں میں شدت پسندی آئے گی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، پھر بھی سخت بیانات آئیں گے
بھاگوت نے کہا، ‘ ہماری سیاسی آزادی کو چھیڑنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔ اس ملک میں ہندو رہے گا، ہندو جائے گا نہیں ، یہ طے ہوچکا ہے۔ ہندو اب بیدار ہو چکا ہے۔ اس کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں اندرونی جنگ جیتنی ہے
چین کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج چین نے جس طاقت میں اضافہ کیا ہے اس کی منصوبہ بندی 1948 میں کی گئی تھی، اس لیے ہمیں (ہندوؤں) بھی آگے بڑھنے کے لیےابھی پہل کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا، ‘آج ہم مضبوطی کی پوزیشن میں ہیں، اس لیے ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ آج ہمیں اپنی طاقت کی پوزیشن میں کیا اقدام کرنا ہے، تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں۔ یہ کارروائی نہیں ہے، لیکن ہمیشہ لڑائی کے موڈ میں رہیں گے تو کوئی فائدہ نہیں ہے
انہوں نے کہا، ‘ہندوستھان، ہندوستھان بنا رہے، یہ سادہ سی بات ہے۔ اس میں آج ہمارے ہندوستھان میں جو مسلمان ہیں ، ان کا کوئی نقصان نہیں۔ وہ ہیں، رہنا چاہتے ہیں، ر ہیں۔ آباؤ اجداد کے پاس واپس آنا چاہتے ہیں، آئیں۔ یہ ان پر ہے۔ ہندوؤں کا یہ اصرار بالکل نہیں ہے۔ اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہاں ہم بڑے ہیں۔ ہم کبھی بادشاہ تھے۔ ہم دوبارہ بادشاہ بنیں۔ یہ چھوڑنا پڑے گا۔ ہم صحیح ہیں باقی غلط ۔ یہ سب چھوڑنا پڑے گا۔ ہم الگ ہیں، اس لیے الگ ہی رہیں گے، ہم سب کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے، یہ چھوڑنا پڑے گا۔کسی کو بھی (یہ سوچنا) ترک کرنا پڑے گا۔ ایسا سوچنے والاکوئی ہندو ، ہے اسے بھی چھوڑنا پڑے گا۔ وہ کمیونسٹ ہے اس کو بھی چھوڑنا پڑے گا۔