نے دہلی( نامہ نگار )2013 میں نتیش کے بی جے پی سے اتحاد توڑنے سے پہلے اور 2017 میں دوبارہ اتحاد کے بعد، بہار کے بی جے پی لیڈروں کے ذہنوں میں سیاسی خواہش پیدا ہو گئی تھی کہ ریاست میں وزیر اعلیٰ اب بی جے پی سے ہونا چاہیے نہ کہ جے ڈی یو سے۔ کئی لیڈروں نے بھی عزائم کو کھلے عام پیش کیا۔ لیکن بی جے پی کی مرکزی قیادت جانتی تھی کہ نتیش کمار کے بغیر ریاست میں حکومت بنانا بہت مشکل ہے، جب 2020 کے اسمبلی انتخابات میں نتیش کی سیٹیں خاصی کم ہوئیں تو بی جے پی لیڈروں کے سیاسی عزائم ایک بار پھر بھڑکنے لگے۔ انہیں امید تھی کہ اب ریاست میں بی جے پی کاوزیر اعلیٰ بنے گا لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔ تاہم مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ بہار میں بی جے پی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے مسلسل سرگرم تھے۔ اسی سلسلے میں مکیش ساہنی کے وی آئی پی کے 3 ایم ایل اے بھی بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق نتیش کمار یہ سمجھ چکے تھے کہ شیوسینا کے ساتھ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والی بی جے پی جب ان کے گھر میں گھس سکتی ہے تو وہ جے ڈی یو میں ایسا کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ ایسے میں شاید نتیش کمار نے جے ڈی یو کی سیاست کو بچانے کے لیے بی جے پی سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ویسے بھی لوگ کہتے ہیں نتیش کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اب معاملہ یہیں نہیں رکے گا اپوزیشن میں نے جان آجاے گی اور ایک دمدار چہرہ مل گیا ہے دیکھا جاے تو یہ قدم شیر کے منھ سے نوالہ چھیننے جیسا ہے امت شاہ کے بہار سیاست پر بڑھتے کنٹرول سے وہ ناراض تھے اور انہوں نے مستقبل کے خطرات کو بھانپ لیا تھا ۔