نئی دہلی :(ایجنسی)
جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کی کال پر یوپی بھون میں احتجاج کرنے آئے 40 سے زیادہ طلبہ کو دہلی پولیس نے پیر کی سہ پہر گرفتار کرلیا۔ جے این یو اسٹوڈنٹس یونین نے پریاگ راج میں آفرین فاطمہ کی والدہ پروین فاطمہ کے گھر کو منہدم کیے جانے کے خلاف یوپی بھون میں مظاہرے کا اعلان کیا تھا، لیکن پولیس نے طلبہ کو روکنے کے لیے جگہ جگہ پولیس تعینات کردی تھی۔ اس کے باوجود کچھ طلبہ وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوئے لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ پولیس نے انہیں آسانی سے اپنی تحویل میں لے لیا۔
پولیس گرفتار طلبہ کو پارلیمنٹ اسٹریٹ تھانے لے گئی ہے۔ طلباء کے ہاتھ میںفیٹرنٹی موومنٹ کے جھنڈےاور بینرز تھے۔ تاہم احتجاج کی کال جے این یو طلبہ یونین نے دی تھی۔ پولیس نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ حراست میں لیے گئے طلبہ کو کب رہا کیا جائے گا۔
اس سے قبل جے این یو میں آفرین فاطمہ کی حمایت میں اتوار کی دیر رات احتجاج چلتا رہا۔ اس کا اہتمام AISA نے کیا تھا۔ طلبہ یونین آفرین فاطمہ کی والدہ پروین فاطمہ کے گھر پر ’بلڈوزر‘ کی کارروائی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ مظاہرے کے دوران کیمپس میں پی ایم مودی اور یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے۔
آفرین فاطمہ کی حمایت میں سوشل میڈیا پر زبردست مہم جاری ہے۔ ان کے گھر کو بلڈوزر سے گرائے جانے کے خلاف تمام عام لوگوں نے ٹویٹ کرکے احتجاج کیا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے پاگل پن کی انتہا لکھا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ بلڈوزر چلتے رہے تو ملک کا ماحول خراب ہو جائے گا۔ بی جے پی اس بات کو زیادہ نہیں سمجھ رہی ہے۔
11 جون کو آفرین فاطمہ نے سوشل میڈیا پر ایک اپیل کی تھی، جس میں انہوں نے قومی کمیشن برائے خواتین کو خط لکھ کر اپنے والد کی حفاظت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔ لیکن یوپی پولیس کا دعویٰ ہے کہ جاوید نوپور شرما کے تبصرے پر پریاگ راج میں گزشتہ جمعہ کے احتجاج کا مبینہ ماسٹر مائنڈ ہے۔
اتوار کو پولیس کی بھاری حفاظت کے درمیان پریاگ راج کی سڑکوں پر بلڈوزر نکل آئے اور سب سے پہلے آفرین فاطمہ کے گھر کو گرایا گیا۔ شام تک گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس گھر سے اسلحہ بھی برآمد ہواہے تاہم پولیس نے فوری طور پر مکان کو گراتے وقت یہ دعویٰ نہیں کیا۔
آفرین کی بہن سمیہ کے مطابق جو گھر مسمار کیا گیا وہ اس کی والدہ کو اس کے نانا نے تحفے میں دیا تھا۔ سمیہ نے دعویٰ کیا کہ نہ تو زمین اور نہ ہی گھر ان کے والد کی ہے۔
جمعہ کے مظاہروں میں جاوید کے کردار کی تردید کرتے ہوئے بیٹی نے کہا، ’’جب جمعہ کو تشدد شروع ہوا تو میرے والد نماز کے بعد سیدھے گھر آئے۔ انہوں نے کسی بھی قسم کے پرتشدد مظاہرے میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔