لکھنؤ:(ایجنسی)
مسلم پولیٹکل کونسل آف انڈیا کی ایک پریس کانفرنس میں آج کونسل کے قومی صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے دعویٰ کیا 2022میں مسلمان طے کریں گے کہ حکومت کون بنائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 2017 انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک مخصوص حکمت عملی کے ذریعے یہ تاثر پیش کیا تھا کہ مسلمانوں کو درکنار کر کے ہی ایک مضبوط سرکار تشکیل دی جاسکتی ہے اسی لئے اس پارٹی نے مسلمانوں کو ایک بھی ٹکٹ دئیے بغیر 313سیٹیں حاصل کیں اور طاقتور حکومت بنا کے سماج کے ہر طبقے کا استحصال کیا۔ بدقسمتی سے ریاست کی تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھاجپا کا سکھایا ہوا یہ سبق اچھی طرح یاد کیا اورآج یہ تمام جماعتیں ریاست کی سب سے بڑی آبادی کو نظرانداز کر کے حکومت سازی کرنا چاہتی ہیں۔ جہاں ایک طرف اترپردیش کی ہر چھوٹی بڑی ذات برادری کے ووٹوں پر ہر پارٹی کی نظر ہے اور ان کے چھوٹے چھوٹے لیڈروں کو بھی اہمیت دی جارہی ہے وہیں دوسری طرف یو پی کی سب سے بڑی 20 فیصدآبادی کے بڑے بڑے رہنماؤں سے بھی بات کرنے میں ان سیکولر پارٹیوں کے لیڈر کترا رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا مسلمانوں کے ساتھ یہ رویہ انتہائی اہانت آمیز اور قابل مذمت ہے۔ انہوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوتے بتایا کہ2017 انتخابات میں140حلقوں میں172 مسلم امیدواروں نے کانگریس -ایس بی پی ، بی ایس پی اور آر ایل ڈی کے ٹکٹوں پر الیکشن لڑا تھا جن میں سے محض24 امیدوار کامیاب ہوئے، جبکہ 84 سیٹوں پر بہت کم ووٹوں سے وہ دوسرے نمبر رہے اور64 سیٹوں پر تیسرے نمبر پر تھے اور ان میں 107 سیٹوں پر بی جے پی کامیاب ہوئی ۔85سیٹوں پر انہیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے غیر مسلم امیدواروں نے مسلم امیدوار کو شکست دی تھی۔ یہ اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں کہ سیاست میں مسلم نمائندگی کم کرنے میں یہ تمام پارٹیاں بھی شریک ہیں۔ اور الزام مسلم ووٹوں کی تقسیم پر عائد کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ مسلم پولیٹکل کونسل ان انتخابات میں ایک مخصوص سیاسی حکمت عملی اختیار کرے گا جس کے تحت ضلع ضلع جا کر وہاں کی تمام اسمبلی سیٹوں پر الگ الگ حکمت عملی اختیار کرے گا۔ ایم پی سی آئی کوشش کرے گا کہ اس انتخاب میں کسی بھی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو اور ایک معلق اسمبلی بنے تاکہ بعد از انتخابات مختلف سیکولر جماعتیں ایک مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہوں اور وہ مسلمانوں کے ووٹ کی اہمیت کا انداز کر سکیں ۔
کونسل کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی جو ایک معروف انتخابی تجزیہ نگار بھی ہیں نے کہا کہ ایک مجبور حکومت دبے کچلے مجبور اور حاشیہ پر کھڑے عوام کی تحفظ اور شناخت کے زیادہ بہتر ثابت ہوتی ہے ،جبکہ مضبوط حکومت کسی بھی جماعت کی ہو بالآخر محروم طبقات کے لئے وبال جان اور ظالم ثابت ہوتی ہے اس کا اندازہ2007-2012 اور2017کی بی ایس پی -ایس پی اور بی جے پی کی مضبوط حکومتوں کی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سرکار میں یہ طبقات روز بروز غیر محفوظ اور مجبور ہوتے چلے گئے ۔ ایسے میں اب یہ ضروری ہے2022میں مخلوط سرکار ایک بار پھر قائم ہو تاکہ محروم طبقات بھی کچھ سکون کا سانس لے سکیں ۔ ریاست بھر میں موجود ایم پی سی آئی کے ارکان معلق اسمبلی منتخب کرنے کے اس ہدف میں ہر انتخابی مرحلہ کے لئے ایک الگ حکمت عملی کے ساتھ کام کریں گے اور بالآخر اتر پردیش کی ریاستی اور قومی سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر مسلم ووٹ کی اہمیت کو تسلیم کرنے پر مجبور کریں گے۔
پریس کانفرنس میں ایم پی سی آئی کے دیگر عہدیداران عبدالقیوم ، عمر فاروق دہلی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔