تحریر :قاسم سید
جمیعت علمائے ہند کے دونوں گروپوں میں الحاق کی خوش کن،حوصلہ افزااور روح میں اتر جانے والی خبروں کے درمیان میں اسٹریم میڈیا بھی اس ڈیولپمنٹ پر گہری نظر رکھ رہا ہے ۔ الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا میں اس کے اثرات و عوامل پر بحث وتجزیے کیے جارہے ہیں ۔اسی دوران اسلام اور مسلمانوں کےتعلق سے مخصوص رجحان و رویہ رکھنے والے رجت شرما کے انڈیا ٹی وی نے بھی ایک پروگرام پیش کیا جس میں انضمام والحاق کے تناظر میں ایسی باتوں کا بھی تذکرہ کیا جن کی نفس مضمون سے کوی نسبت ہی نہیں ہے۔ جمیعت کی خدمات کی تفصیل ، اس کے ٹکڑے ہونے اور پھر مل جانے کی کوششوں کی تاریخ بتانے کے ساتھ غیر ضروری طور پر دو محترم بڑی و مقبول شخصیات اویسی اور محمود مدنی کا موازنہ بھی کیا۔یہی وہ خطرناک پہلو ہے جہاں رپورٹ کے بین السطور کو پڑھنے اور شرارت کو سمجھنے کا تقاضہ محسوس کرنا ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے ۔
انڈیا ٹی وی نے دونوں کا فرق بتاتے ہوئے کہا کہ جہاں تک اویسی کا تعلق ہے وہ مسلمانوں کو بھڑکاتے ہیں جبکہ محمود مدنی انہیں سمجھاتے ہیں۔اویسی مسئلہ کو الجھا تے ہیں اور محمود مدنی سلجھاتے ہیں۔چینل نے ذہانت وقیادت کی تعریف کے ساتھ یاد دلایا کہ محمود مدنی نے ایسے وقت سی اے اے این آرسی کو سپورٹ کیا تھا جب پورے ملک میں اس کی مخالفت ہو رہی تھی (یہ تعریف ہے یا شرارت۔قارئین خود فیصلہ کریں) چینل کے مطابق اویسی کی محمود مدنی کے مقابلے کوئی حیثیت نہیں ہے،اس نے حالیہ انتخابات میں ایم آئی ایم کو ملے ووٹ فیصد کا حوالہ دے کر دعویٰ کیا کہ محمود مدنی کے سامنے اویسی کی طاقت پہاڑ کے نیچے اونٹ کی طرح ہے۔چینل کا کہنا ہے کہ ہندوستانی خاص طور سے مسلم سیاست پر مدنی فیملی کی دھاک اور دبدبہ ہے اور تقسیم کے باوجود اس کا رتبہ کم نہیں ہوا۔جمیعت اور مودی کی سوچ یکساں ہے دونوں ملک کے وکاس کی بات کرتے ہیں۔ملک کے معاملات میں جمیعت کا تحمل قابل قدر ہے اس تعلق سے چینل نے محمود مدنی کی جمیعت کے حالیہ دیوبند اجلاس میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیا۔انڈیا ٹی وی کا کا کہنا تھاکہ دارالعلوم دیوبند کو جمیعت چلاتی ہے
بہرحال یہ چینل کا تجزیہ ہے،محمود مدنی یا جمیعت کا دعوی و تجزیہ نہیں ہے۔یہ خیال رہے کہ محمود مدنی نے اپنے اکثر بیانات میں اسد الدین اویسی کے تعلق سے محتاط رویہ کا مظاہرہ کیا بلکہ ان کی تعریف بھی کی ہے۔ظاہر ہے ہے دونوں کا میدان کار الگ ہے، نظریات الگ ہیں۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ دونوں لیڈروں اور ان کے پیروکاروں کے درمیان تلخی اور دوری پیدا کرنے کی شرارت ہے۔کسی کو دوسرے سے زیادہ بڑا اور طاقتور بتانا سیاسی طور پر تو درست مانا جاسکتا ہے لیکن ایک ہی کمیونٹی کے دولیڈروں کے درمیان اس طرح کاجارحانہ موازنہ پہلے سے ہی بکھرے سماج میں اور زیادہ انتشار پیدا کرنے کی کوشش اور غلط فہمیوں کو ہوا دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
بعض عقیدت مند اس مبینہ تجزیاتی رپورٹ میں پوشیدہ زہر اور شرارت کو سمجھے بغیر اسے وائرل کررہے ہیں ۔یہ سوچے بغیر کہ یہ وہی میڈیا ہے جس کے بارے میں کئ مرتبہ خود سپریم کورٹ وارننگ دے چکا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے ،کنگارو کورٹس، جمہوریت اور ملک کو پیچھے لے جارہے ہیں ۔ہمیں ‘محبت کے شہد’ میں ڈوبی شرارتوں اور پس پردہ اس کے مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اور بالفرض یہ تجزیہ صحیح بھی مان لیا جاے تو بدنیتی کا مکروہ چہرہ اور ہدف بھی دیکھ لیا جانا چاہیے ۔ہمارے لیے بحیثیت لیڈر دونوں محترم ہونا چاہیے یہ اختلاف ہمارے اپنے ہوسکتے ہیں مگر کسی دوسرے کو زخموں پر نمک چھڑکنے اور کریدنے کی اجازت ہرگز نہ دی جاے ۔
کوئ کہہ سکتاہے کہ یہ بے ضرر رپورٹ ہے اس کو بلاوجہ تل کا تاڑنہ بنایا جاے ،یہ خیال درست نہیں ہے اس لیے کہ چھوٹی چھوٹی بدگمانیاں ہی مخالفت اور پھر دشمنی میں بدل جاتی ہیں ۔سبرامںنیم سوامی نے سالوں پہلے مسلمانوں کے درمیان اختلاف کے حوالہ سے جس حکمت عملی کا تذکرہ کیا تھا وہ ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ اکثر جنگیں ہارنے کی وجہ یہ رہی کہ فصیل شہر کے پھاٹک اندر سے کھولے گیے تھے۔یہ میڈیا اس ملک کے لیے ہمارے تکثیری سماج کے لیے مسلم کمیونٹی کے لیےچین سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔اس پہلو نظرانداز نہ کیا جاے۔ ہمارے ادارے ان پر صرف گہری نظر ہی نہ رکھیں بلکہ ان کا منھ توڑ جواب کا میکنزم بھی تیار کریں کیونکہ ہم میڈیا لیس ہونے کا خمیازہ بہت پہلے سے بھگت رہے ہیں۔