تحریر : مسعود جاوید
جب جب میں نے دینی مدارس کے طرز پر نرسری سے بارہویں جماعت تک معیاری انگلش میڈیم اسکول ( مع اسلامیات اور اردو لازمی سبجیکٹ ) کا جال بچھانے یا ملی میڈیا لانچ کرنے کے بارے میں لکھا اس پر زیادہ تر لوگوں کے تبصروں کا ملخص یہی ہے کہ مدرسہ والوں کا چندہ ان مقاصد میں استعمال کیا جائے ! یعنی ہلدی لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ ہو چوکھا !
سب سے پہلی بات یہ کہ مدارس کے چندے کا طریقہ کار، بدنظمی، خردبرد کے الزامات اور کمیشن کی میں مخالفت کرتا ہوں، اس لئے میری کسی تحریر کو ان کی غلط روش کا دفاع نہیں سمجھا جائے۔
دوسری بات یہ کہ دینی طبقے اہل مدارس و تبلیغی جماعت وغیرہ نے عوام میں کام کر کے مسلمانوں کا اعتماد حاصل کیا ہے۔ یہ لوگ سردی گرمی اور برسات میں، شہر شہر قریہ قریہ کچی پکی سڑکوں پر چل کر کبھی کبھی بھوک پیاس برداشت کرکے لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں کہیں ان کا استقبال ہوتا ہے تو کہیں ’دھتکارے‘ جاتے ہیں۔
کتنے غیر مولوی اور غیر جماعتی حضرات ایسا کر کے کسی ملی کاز کے لئے وقت دینے کو تیار ہیں ؟
کیا سرسید علیہ الرحمۃ نے چندہ نہیں کیا تھا….کیا تھا لیکن افسوس سرسید سے نسبت رکھنے والوں نے سرسید کے خواب کی تکمیل کے لیے کچھ نہیں کیا، حالانکہ علیگ برادری ہندوستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں اچھی حیثیت کے مالک ہیں ان کے لئے اسکول کا جال بچھانے کے لئے مالی وسائل بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے بشرطیکہ انہیں احساس ہو کہ مادر علمی کا قرض ان کے اوپر ہے جسے کسی نہ کسی شکل میں اتارنا ہے۔
اسی طرح غیر علیگ بھی جن کے دلوں میں قوم و ملت کا درد ہے وہ بھی دامے درمے سخنے اپنی اپنی صلاحیت، حیثیت اور استطاعت کے مطابق نرسری سے بارہویں جماعت تک کے اسکول کا جال بچھانے میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اللہ نے مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ کسی کو اچھی سوچ و فکر کی صلاحیت سے نوازا ہے وہ آئیڈیا دے سکتا ہے پلاننگ کر سکتا ہے، کسی کو علمی صلاحیت اور وقت سے نوازا ہے وہ اپنا وقت رضاکارانہ یا مناسب اجرت کے عوض دے سکتا ہے کسی کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہے وہ فائنانس کر سکتا ہے۔
تیسری بات یہ کہ ہم سہل پسند ہیں اس لئے ہماری نظر چندے پر جاتی ہے۔ ہم کیوں نہیں اوقاف کی جائیداد حاصل کر کے اس پر تجارتی منفعت کے نقطہ نظر سے عمارات بنوا کر اس کے کرایہ سے اسکول کالج پولی ٹیکنیک انجینئرنگ اور میڈیکل کالجز قائم کریں۔ اس کے لئے عوامی تحریک کی ضرورت ہوگی حکومت سے وہ زمینیں حاصل کرنا آسان نہیں ہے اور کتنے مسلم افسران اس میں ملوث ہیں۔
اس کے لئے سڑک پر ہم نہیں اتر سکتے اس لئے کہ یہ کام یکسوئی چاہتا ہے تسلسل کے ساتھ فولو اپ متابعت چاہتا ہے ۔جبکہ ہم سوڈا واٹر پینے والی مخلوق ہیں ۔ ہمیں عادت ہے جذباتی مسئلوں پر باہر نکلنے اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کہنے کی۔ تعلیم ہماری ترجیحات میں نہیں ہے تو ہم اس کے لئے فکرمند کیونکر ہوں گے۔