اندور :(ایجنسی)
مسلم تنظیموں نے وکیلوں کے مطالبہ کو مذہبی منافرت سے کیا تعبیربھوپال رکن پارلیمنٹ سادھوی پرگیہ کے ذریعہ صبح کے وقت لاؤڈاسپیکر پر مساجد سے ہونے والی اذان کا معاملہ ابھی سرد بھی نہیں پڑا تھا کہ اندور کے وکیلوں نے صوتی آلودگی کے نام پر لاؤڈ اسپیکر سے مساجد سے ہونے والی اذان کو بند کرنے کا مطالبہ شروع کر کے مدھیہ پردیش میں ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے ۔ اندور کے وکیلوں نے اپنے مطالبات کو لے کر جہاں اندور کے ڈیویزنل کمشنر کے ساتھ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ کو میمورینڈم بھیج کر اس پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ وہیں مسلم تنظیموں نے وکیلوں کی کارکردگی کو مذہبی منافرت سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔
نیوز18کی خبرکے مطابق مدھیہ پردیش جمعیۃ علما کے صدر حاجی محمد ہارون کہتے ہیں کہ لاؤڈاسپیکر کا استعمال صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سبھی مذاہب کی عبادت گاہوں میں ہوتا ہے ۔ جہاں تک صوتی آلودگی کا تعلق ہے تو یہ صوتی آلودگی صرف مذہبی عبادت گاہوں میں استعمال ہونے والے لاؤڈاسپیکر سے نہیں بلکہ سیاسی، سماجی تقریب، شادیوں میں بجنے والے بینڈ باجے اور گاڑیوں سے بھی صوتی آلودگی پیدا ہوتی ہے ۔ صبح کے وقت مساجد سے ہونے والی اذان یا مندر میں بجنے والے بھجن اور کیرتن سےرحمتوں کا نزول ہوتا ہے ۔ نیک لوگ صبح کی اذان اور بھجن کیرتن سے اٹھتے ہیں اور اپنے مالک کی حمد و ثنا میں مصروف ہوتے ہیں ۔وہ لوگ جو صبح کے وقت اٹھتے نہیں ہے ۔اپنی مذہب کی عبادت گاہوں میں جاکر عبادت میں شامل نہیں ہوتے ہیں اور ملک کے لئے بوجھ بنے ہوئے انہیں ان سے تکلیف ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے لاؤڈاسپیکر کا استعمال ضروری ہے ۔ہم تو حکومت سے مانگ کرتے ہیں کہ اس پر قومی سطح پر قانون بنائے تاکہ مذاہب کے لوگوں پر اس کا یکساں طور پر اطلاق ہوسکے ۔صرف مساجد کے لاؤڈاسپیکر پر پابندی کی بات کرنا کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے۔
وہیں مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ ڈاکٹر نروتم مشرا کہتے ہیں کہ انہیں اس سلسلہ میں میمورینڈم دیاگیا ہے ۔اس کی جانچ کے لئے بھیجا گیا ہے اور جانچ رپورٹ آنے کے بعد اس پر کوئی بات کی جا سکتی ہے ۔
وہیں مدھیہ پردیش کانگریس پارٹی ایم ایل اے عارف مسعود نے اندور وکیلوں کے ذریعہ کی گئی اس مانگ کی مذمت کی ہے ۔ عارف مسعود کہتے ہیں کہ وکیل کا پیشہ بالکل مختلف ہوتا ہے اور وکیل کسی بھی معاملے میں مذہب کے بندھن سے اوپر اٹھ کر صرف اپنے کلائنٹ کے لئے مقدمہ لڑتا ہے اور اگر وکیلوں کے گروپ کے ذریعہ ایسی مانگ کی جائے گی تو اسے مناسب نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ایسے ہی ایک معاملے میں ہماری پہلے ہی مدھیہ پردیش کےوزیر داخلہ سے بات ہوئی تھی تب انہوں نے کہا تھا کہ مدھیہ پردیش میں لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر کسی قسم کی پابندی کی حکومت کے پاس کوئی تجویز نہیں ہے۔ سبھی کو مذہبی آزادی ہے اور لاؤڈاسپیکر صرف مسلمان ہی استعمال نہیں کرتے ہیں بلکہ سبھی مذاہب کے لوگوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے ۔ جولوگ مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں انہیں ان سے بعض آنا چاہیے۔