شیوانگی سکسینہ
’’رابعہ بہت اچھی لڑکی تھی۔ میں نے اسے بڑا ہوتا دیکھا ہے۔ 28 اگست کو جب پولیس اس کی لاش لائی تو میں اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس کے تمام چہرے پرنشانات تھے۔ اس کا جسم سکڑ گیا تھا۔ خواتین کے جتنے اعضاء ہوتے ہیں سب کاٹ دئے تھے۔ اسے بہت بے رحمی سے مارا گیا تھا ۔ پولیس نے کہا رابعہ کی لاش کو گاؤں لے جاؤ۔ لاش کو یہاں مت رکھنا ۔‘‘ رابعہ کی پڑوسی 40 سالہ مینا نے بتائی ۔
21 سالہ رابعہ سیفی کو 26 اگست کو مبینہ طور پر چاقو مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق رابعہ کو بار بار چاقو سے حملہ کیا گیا اور اس کی شرمگاہ کو بے دردی سے کچلا گیا۔
واقعہ 26 اگست کی رات کا ہے۔ پولیس کو رابعہ کی لاش فرید آباد کے سورج کنڈ پالی روڈ کے قریب سے برآمد ہوئی۔ 27 اگست کو23 سالہ محمد نظام الدین نام کے ایک شخص نے کالندی کنج پولیس اسٹیشن آکر خودسپردگی کی اور رابعہ کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔ رابعہ اور نظام الدین سول ڈیفنس میں کام کرتے تھے۔ معاملے کے سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر رابعہ کے لیے انصاف کی مانگیں اٹھ رہی ہیں ۔
21 سالہ رابعہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی اے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ رابعہ ایک سادہ گھرانے سے تھی۔ اس کے والد صمد احمد لکڑی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی ماں اسکول میں جھاڑو لگانے کا کام کرتی ہے۔ اس کے خاندان میں دو بھائی اور ایک چھوٹی بہن بھی ہے۔ وہ تمام دہلی کے سنگم وہار میں کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں۔ سول ڈیفنس میں نوکری کرتے ہوئے رابعہ کو صرف تین مہینے ہوئے تھے ۔
رابعہ کے دادا کا انتقال ہو گیا تھا ، جس کے بعد رابعہ کے والد اور والدہ 2 اگست کو مراد آباد میں اپنے گاؤں گئے تھے،جبکہ رابعہ اور اس کے تین بہن بھائی گھر میں رہ رہے تھے۔ والدین 25 اگست کو دہلی واپس آئے اور 26 اگست کو رابعہ کی موت کی خبر ملی۔
55 سالہ رابعہ کے والد صمد احمد نے نیوز لانڈری سے بات کی۔ وہ کہتے ہیں ، ’’رابعہ صبح 11 بجے ڈیوٹی کے لیے گھر سے نکلتی تھی اور رات 8 بجے تک آجاتی تھی۔ اس دن رات کے ساڑھے آٹھ بج گئے تھے۔ رابعہ ڈیوٹی سے نہیں آئی تو ہم اسے ڈھونڈنے لگے۔ ہم نے اسے کال کیا تو اس کا فون بند آرہا تھا ۔ اس کے بھا ئی گلی کے باہر اور بس اسٹینڈ پر اسے رات بھر تلاش کرتے رہے۔ میں لاجپت نگر اس کےدفتر بھی گیا۔ وہاں مجھے اگلی صبح آنے کو کہا گیا ۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں :’ ’ 27 اگست کو گھر کی گھنٹی بجی۔ ہم نے جب دروازہ کھولا تو سورج کنڈ پولیس کھڑی تھی جس کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوا کہ رابعہ اب اس دنیا میں نہیں رہی اور اس کا بے رحمی سےقتل کردیا گیا ہے ۔‘‘
اہل خانہ کاکہنا ہے کہ وہ نظام الدین کو نہیں جانتے اور ان کی بیٹی کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ کسی ایک شخص نے نہیں مارا بلکہ کئی آدمیوں نے مل کر رابعہ کا قتل کیا ہے ۔ اب اہل خانہ معاملے کی سی بی آئی جانچ چاہتا ہے ۔
نیوز لانڈری ٹیم کالند ی کنج تھانہ بھی گئی۔ وہاں موجود کانسٹیبل ذاکر حسین نے ہمیں بتایا ،’’نظام الدین 27 اگست کو آیا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ اس نے اپنی بیوی کو مار دیا ہے اور وہ وہاں خودسپردگی کرنے آیا ہے ۔ ہم نے اسے آئی پی سی کی دفعہ 302 کے تحت گرفتار کرلیا۔ تب سے نظام الدین سورج کنڈ کرائم برانچ کے زیر نگرانی ہے ۔‘‘
معاملے کو گہرائی سے جاننے کے لیے ہم نظام کے گھر بھی گئے۔ نظام الدین کے بھائی 29 سالہ راجو کھڈا کالونی کالونی ( جیت پور ) میں اپنی ماں کے ساتھ ایک کمرے کے مکان میں کرائے پر رہتے ہیں ۔ وہ مزدوری کا کام کرتے ہیں۔ راجو کو کوئی شک نہیں تھا کہ ان کا بھائی کچھ ایسا کرے گا۔ مجھے کالندی کنج پولیس اسٹیشن سے کال آئی تھی ، اس کے بعد مجھے ساکیت کورٹ بلایا گیا جہاں نظام الدین کو پیش کیا گیا تھا۔ تب مجپے پہلی بار معلوم ہوا کہ نظام الدین نے رابعہ سے شادی کی ہے ۔ راجو کہتے ہیں وہ آگے کہتے ہیں، ’’نظام الدین نے مجھ سے کہاکہ اس نے اور رابعہ نے شادی کی تھی۔ نظام الدین کو شک تھا کہ رابعہ اور اس کے سینئر راویند ر مہرا کے درمیان قربت بڑھ رہی ہے ۔ رابعہ کے کردار پر شک کی بنیاد پر نظام الدین نے رابعہ کا قتل کیا ہے ۔‘‘
اس کے علاوہ راجو نے کئی اہم انکشافات کیے ہیں۔ نظام الدین کو سول ڈیفنس میں کام کرتے ہوئے ایک سال ہو گیا تھا۔ وہ رات کو 10 یا 11 بجے آتے تھے۔ رابعہ اور اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی۔
راجوجب لوٹ کر گھر آیا تو اس نے نظام الدین کے کپڑوں اور بیگ کی تلاشی لی۔ اس میں کئی دستاویزات کے ساتھ رابعہ کے اہل خانہ کی تصاویر ملیں، ان تصویروں کے مطابق نظام الدین رابعہ کی ماں ،والد اور بہن سے باقاعدگی سے ملتے رہتے تھے ۔ نیوز لانڈری کو رابعہ اور نظام الدین کی شادی کے دستاویزات بھی ملے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں نے آپسی رضامندی سے کورٹ میں شادی کی تھی ۔
رابعہ کی موت کے ذریعے مسائل سے انحراف کی کوشش؟
نیوز لانڈری نے رابعہ کے وکیل محمود پراچہ سے بھی بات کی۔ وہ کہتے ہیں ، ’رابعہ کے سینئر رویندر مہرا کو بدعنوانی کے معاملے میں ایک دن پہلے 25 اگست کو پوچھ گچھ کے لیے لے جایا گیا تھا۔ بتادیں کہ مہرا کی قیادت میں پولیس نے حفاظتی پروٹوکول کی خلاف ورزی کے لیے بہت سارے چالان (جرمانہ) جاری کئے۔ پولیس نے مبینہ طور پر ڈپلیکیٹ کاپیاں چھاپی اور بھاری مقدار میں رقم کی ہیرا پھیری کی۔ مہرا اہم طور سے پورے منی لانڈرنگ معاملے میں شامل تھا۔ جبکہ رابعہ نے پورےواقعہ دیکھی کیونکہ وہ مہرا کی اسسٹنٹ تھی اس لئے مہرا کی کہانی کو دبانے کے لیے رابعہ کو مار دیا گیا۔ ‘
رابعہ کے وکیل نے مزید کہا کہ یہ معاملہ ابھی تفتیش کا موضوع ہے۔ ہم اس کی غیر جانبدار سی بی آئی تفتیش چاہتے ہیں۔ ملک میں کیس کو چھپانے کے لیے دلتوں ، مسلمانوں اور لڑکیوں کو آلہ کار بنایا جاتا ہے ۔ مہرا کے کیس کو چھپانے کے لیے اور شاید اسے بچانے کے لیے رابعہ کو مار دیا گیا۔ مسائل سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے اس معاملے میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے ۔
کالندی کنج پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ سماج کے کچھ گروپ رابعہ کے کیس کو غلط موڑ دے کر کیس کو موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے انصاف ملنے میں تاخیر ہوتی ہے۔ لوگوں کو پولیس کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے۔
نیوز لانڈری نے سورج کنڈ کرائم برانچ سے بھی بات کی۔ جس میں پتہ چلا کہ نظام الدین اس وقت دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہے۔ پولیس نے اس بارے میں مزید معلومات دینے سے انکار کر دیا۔ ہم نے رویندرمہرا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا موبائل بند ہے۔
خواتین کے خلاف جرائم کے اعدادوشمار کیا کہتے ہیں؟
2019 کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق قومی دارالحکومت دہلی میں ہر گھنٹے میں ایک خاتون کے خلاف جرم کیا جاتا ہے۔ سال 2021 میں راجیہ سبھا میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں ملک میں عصمت دری اور قتل کے 283 مقدمات درج کیے گئے۔ وہیں خواتین کے اغوا کے 72780 مقدمات درج کیے گئے۔ 2019 میں دہلی میں 13395 اور ہریانہ میں 14683 جرائم درج ہوئے۔ یہ صرف رپورٹ شدہ کیس ہیں۔ اس کے علاوہ روزانہ ایسے کئی کیسز ہوتے ہیں جو پولیس رجسٹر میں جگہ نہیں بناتے۔
(بشکریہ : نیوزلانڈری)