تحریر :رجت شرما
(نوٹ: ملک کا مین اسٹریم میڈیا سماج کی جس طرح سے ‘خدمت’ کررہا ہے وہ کھلا راز ہے،مسلمانوں کے خلاف بیانیہ تیار کرنے میں خصوصی مہارت ہے ۔ اس حمام میں زیادہ تر ننگے ہیں ،سرحدی اضلاع میں مسلمانوں کی بڑھتی آبادی اور ڈیموگرافی بدلنے کی ‘سازش’ کا واویلا اسی مہم کا حصہ ہے معروف جرنلسٹ رجت شرما دائیں بازو کے رجحانات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ان کا یہ مضمون آگ میں گھی ڈالنے جیسا ہے جو مفروضات پر قایم ہے ۔ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کس طرح نفرت اور خوف کا ماحول بنایا جارہا ہے اسے پڑھ کر وہی راے بن سکتی ہے جو ہندی میڈیا کا اصل مقصد ہے ,ادارہ)
میں نیپال کی سرحد سے متصل اتر پردیش کے سات اضلاع اور بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحق آسام کے چار اضلاع میں دیکھے گئے کچھ پریشان کن رجحانات کے بارے میں بتاؤں گا۔ یوپی اور آسام پولیس کی طرف سے چند روز قبل مرکزی وزارت داخلہ کو بھیجی گئی اس حساس رپورٹ کے مطابق کئی چونکا دینے والی باتیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ان سرحدی اضلاع میں آبادیاتی تبدیلی پریشان کن ہے۔یوپی پولیس کے مطابق 7 سرحدی اضلاع پیلی بھیت، لکھیم پور کھیری، شراوستی، سدھارتھ نگر، مہاراج گنج، بلرام پور اور بہرائچ میں گزشتہ 10 سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان اضلاع میں مساجد اور مدارس کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
زمینی رپورٹ میں ان اضلاع کے ایک ہزار سے زائد دیہاتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے۔ ان 7 اضلاع کے 116 گاؤں میں مسلمانوں کی آبادی میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، جب کہ سرحدی علاقوں میں تقریباً 303 گاؤں ایسے ہیں جہاں گزشتہ 10 سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں 30 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
ان اضلاع میں مساجد کی تعداد میں بھی تقریباً 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل آسام کے دھوبری، کریم گنج، جنوبی سلمارہ اور کاچھر اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی میں 30 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نہ صرف یوپی اور آسام بلکہ پاکستان کی سرحد سے ملحقہ راجستھان اور چین کی سرحد سے متصل اتراکھنڈ کے کئی اضلاع میں بھی مساجد اور مدارس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
بی ایس ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے علاوہ ایسے مولوی اور مولانا سرحدی علاقوں جیسے پوکھران، موہنگڑھ اور جیسلمیر میں بھی نظر آتے ہیں جو باہر کے لوگ ہیں۔ ان علاقوں کے زیادہ تر مدارس میں جو علماء پڑھاتے ہیں وہ بھی مقامی نہیں ہیں۔ چتور گڑھ سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سی پی جوشی نے کہا کہ راجستھان میں کانگریس حکومت خوشامد کی پالیسی اپنا رہی ہے، اس لیے باہر سے آئے مسلمانوں کی جانچ نہیں کی جا رہی ہے۔ یوپی، آسام اور راجستھان بڑی اور پرانی ریاستیں ہیں لیکن تقریباً 22 سال قبل بننے والے اتراکھنڈ میں بھی نیپال سے ملحقہ علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی رفتار حیران کن ہے۔ اتراکھنڈ میں پچھلے 10 سالوں میں مسلمانوں کی تعداد میں 2.5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ابھی چند روز قبل خبر آئی تھی کہ اتراکھنڈ کے جنگلات میں بڑے پیمانے پر مقبرے بنائے گئے ہیں اور روہنگیا مسلمانوں نے اپنی بستیاں آباد کر لی ہیں۔
اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد ریاستی حکومت کی جانب سے جنگل کی زمین سے مقبرے اور روہنگیا مسلمانوں کو ہٹانے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ نومبر 2021 میں ڈی جی پی کانفرنس کے دوران وزیر اعظم مودی کی موجودگی میں سب سے پہلے اتر پردیش میں نیپال سے متصل اضلاع اور آسام میں بنگلہ دیش سے ملحق علاقوں میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم مودی اس کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے اور ان کے سامنے یوپی پولیس کی طرف سے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی۔ اس رپورٹ کو 2 دن پہلے اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ یوپی پولیس نے اپنی پریزنٹیشن میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ پہلے سرحد کے قریب دیہاتوں میں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی مخلوط آبادی ہوا کرتی تھی لیکن اب ان اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر پڑوسی ممالک، پاکستان اور بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں لوگ ہمارے سرحدی علاقوں میں بھیجے جا رہے ہیں تو یہ تشویشناک بات ہے۔ اگر پاکستان اور چین کی سازش کے تحت بھارت کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں مسلمانوں کو آباد کیا جا رہا ہے تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یوپی اور آسام پولیس کی اس رپورٹ پر بی ایس ایف کی اطلاع پر فوری کارروائی کی جائے اور اس سازش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ (رجت شرما)