عبید اقبال عاصم علی گڑھ
گذستہ کل پروفیسر ابوالکلام قاسمی(1950-2021)بھی مرحومین کی فہرست میں چلے گئے۔ یہ بھی حقیقت ھے کہ ان کے انتقال سے اردو دنیاایک عظیم دانشور’محقق‘ تنقید نگار اور بلند پایہ ادیب سے محروم ہو گئ ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔
پروفیسر ابوالکلام قاسمی صاحب دارالعلوم دیوبند کے ان معروف فضلاء میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتسم کئے ہیں، حالانکہ وہ اپنے ظاہری حلیہ اور اپنی وسعت فکری کے لحاظ سے کسی دینی درسگاہ کے فاضل نہیں معلوم ہوتے تھے لیکن دیوبند نے انکی بنیادی تعلیم و تربیت میں جو کردار ادا کیا تھا وہ اس سے اپنے تعلق کا اظہار کئے بنا نہیں رہتے تھے ۔ مرحوم سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ دیوبند کے تذکرے کے بنا ختم نہیں ہوتی تھی وہ اپنے درسی ساتھیوں انجم عثمانی مرحوم مولانا ارشد رضا بجنوری (مقیم حال بجنور)اور فرحت ہاشمی مرحوم (برادرعزیز مولانا راحت ہاشمی ) کا تذکرہ کرکے اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرتے۔ مرحوم نے ایک دفعہ یہ بھی بتایا کہ دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم مولانا مفتی ابو القاسم مد ظلہ العالی بھی ان کے درسی ساتھیوں میں ہیں ۔ گذشتہ سال مرحوم کو میں نے اپنی کتاب ’دیوبند- تاریخ و تہذیب کے آئینے میں‘ دی کچھ عرصہ بعد ملاقات ہوئی تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس کتاب کے مطالعہ سے محظوظ ہونے کی خبر سنائی بلکہ اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اس کتاب پر ایسا تبصرہ لکھنے کا (جس میں دیوبند سے متعلق یادداشتیں یکجا ہو سکیں) وعدہ کر کے میری حوصلہ افزائی بھی فرمائی( افسوس کہ مسلسل بیماری اور’فاصلاتی ماحول‘ کے باعث یہ وعدہ وفا نہیں ہو سکا) لیکن اس سے اس تعلق کا ضرور پتہ چلتا ہے جو مرحوم دیوبند کے تعلق سے اپنے دل و دماغ میں رکھتے تھے ۔ وہ اپنی طالبعلمی کے زمانے میں ہی تحریر و تقریر کے میدان میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک بے تکلف گفتگو میں مرحوم نے اپنے دیوبند کے اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے بطور خاص مولانا انظر شاہ کشمیری کا ذکر کیا جس سے معلوم ہواکہ’حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے جن شاگردوں کی تحریری تربیت کی ان میں ایک نام پروفیسر ابوالکلام قاسمی کا بھی شمار ہوتا ہے۔ ان کی زمانہ طالبعلمی کی تحریروں کی شاہ صاحب نے حوصلہ افزائی کی جس کی وجہ سے ان کے اندر تحقیق وتنقید کے میدان میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو بھرپور ذہانت و فطانت ودیعت کی تھی،چنانچہ 1967میںدارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد وہ عصری علوم کی طرف مائل ہو گئے۔یہاں انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم ہوئے جن کا انہوں نے فائدہ اٹھایا اپنے تحقیقی مزاج اور شبانہ روز محنت کی بدولت انہوں نے اردو دنیا میں اپنا مقام بنا لیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہونے کے بعد انہوں نے اپنی زندگی تحقیق وتنقید کے لئے وقف کرکے اپنے علمی سفر کو ایک نئی جہت دی جس کی وجہ سے ان کی اپنی شناخت قائم ہو گئی ۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ماہنامہ ’تہذیب الاخلاق ‘ اور سہ ماہی ’فکر ونظر‘ کے ایک مدت تک مدیر رہے۔ شعبہ اردو کی چیئر مین شپ کے علاوہ فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین بھی رہے۔اردو کے سرکاری و غیر سرکاری تعلیم وتدریس کے تمام ہی اداروں سے قاسمی صاحب مرحوم کی رسمی یا غیر رسمی وابستگی ان اداروں کی شان وشوکت میں اضافہ کی علامت تصور کی جاتی تھی۔
2015ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی انہوں نے اپنے علمی سفر کو حسب سابق جاری رکھا اور ماہنامہ ’فکر نو‘جاری کیا وہ گذشتہ ایک سال سے کینسر کے موذی مرض سے نبردآزما تھے جس کی تشخیص ان کی زندگی کے آخری حصے میں ہوپائی چنانچہ یہی مرض 8جولائی 2021کی شام غروب آفتاب سے قبل ان کی زندگی کا چراغ گل کرگیا اور اردو دنیا اپنے ایک مخلص وفادار خادم سے محروم ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی سیائت سے درگزر فرما کر انہیں نیکیوں میں تبدیل فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ۔
مرحوم کی نماز جنازہ 9جولائی 2021 بروز جمعہ صبح ساڑھے آٹھ بجے یونیورسٹی برستان میں پروفیسر سعود عالم قاسمی صاحب کی اقتداء میں ادا کی گئ جس میں یونیورسٹی کے بہت سے شعبوں کے ذمیداران شعبہ اردو کے تدریسی وغیر تدریسی اراکین کے علاوہ ان کے متعلقین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ابو الکلام قاسمی کی پیدائش دربھنگہ ضلع کے ایک متمول خاندان میں 1950کی بتائی جاتی ہے ۔انہوں نے اپنے ورثاء میں دو بیگم نیز تین لائق وفائق فرزند اور بھرا پرا خاندان چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل اور اردو دنیا کو ان کا نعم البدل عطافرمائے ۔ آمین