گڑگاؤں : (ایجنسی)
گڑگاؤں میں نماز ادا کو لے کر تنازع اور ایک طبقے کے لوگوں کی مخالفت تھمتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ انگریزی اخبار’ انڈین ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق پہلے شہر کے سیکٹر 47 میں نمازادا کرنے کو لے کر ہنگامہ ہوا اور اب سیکٹر 12 اے کے چوک پر بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے کو ملا۔
رپورٹ کے مطابق سیکٹر 12 اے میں نماز جمعہ کے دوران کم از کم 30 مظاہرین وہاں پہنچے، جن میں سے کچھ بجرنگ دل سے بھی تھے۔پولیس نے بتایا کہ مظاہرین نے بھاری سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں ’جے شری رام‘ اور ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگائے۔
احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ’باہری لوگ‘ چوک پر ’غیر قانونی‘ طریقے سے نماز ادا کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے پولیس سے یہ بھی کہا کہ اگر اگلے جمعہ کو اسی جگہ پر نماز ادا کی گئی تو کوئی ’بدقسمتی کا واقعہ‘ہو سکتا ہے اور اس کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہو گی۔
اخبار پولیس ذرائع اور ضلع انتظامیہ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ نماز کے لیے سیکٹر 12 کی یہ جگہ وہاں رہنے والوں کی رضامندی سے انتخاب کی گئی تھی ۔
18 مئی 2018 کو انتظامیہ نے ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے ساتھ بات چیت کے بعد گڑگاؤں میں 37 مقامات پر نماز کی منظوری دی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہاں ایک سال سے زائد عرصے سے نماز ادا کی جا رہی ہے اور اب تک اس میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
وہیں مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ انتظامیہ نے نماز کی اجازت صرف ایک دن کے لیے دی تھی اور وہ بھی اس شرط پر کہ اس سے مقامی لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
راجیو نگر کے ایک رہائشی نے اس سلسلے میں پولیس کو ایک تحریری شکایت پیش کی ہے جس پر کئی مظاہرین کے دستخط ہیں۔ خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کچھ عرصے سے وہ لوگ جو قریبی علاقوں سے نہیں ہیں وہ سیکٹر 12 اے کے چوک میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ خط میں کہا گیا، ’مجھے شک ہے کہ یہ لوگ بنگلہ دیشی ہیں یا روہنگیا۔ ان کے شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے اور ایک تحریری فہرست بنائی جانی چاہیے۔‘ خط میں لکھا گیا ہے کہ اس سے مقامی لوگوں میں غصہ ہے، جو تشدد میں بدل سکتا ہے۔
گڑگاؤں کے سیکٹر-47 میں گزشتہ ایک ماہ سے نمازادا کرنے کو لے کر اسی طرح کا تنازع چل رہا تھا، لیکن پولیس اور انتظامیہ کی مسلسل کوششوں اور سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کے بعد اب نمازپرامن طریقے سے ادا کی جارہی ہے