نئی دہلی :(ایجنسی)
سپریم کورٹ نے جمعہ کو گیان واپی مسجد تنازع کیس میں اپنا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس پورے معاملے کو سینئر ڈویژن وارانسی کے سول جج سے ڈسٹرکٹ جج کو منتقل کردیا جائےاور اس معاملے میں تمام درخواستوں کو بھی ڈسٹرکٹ جج کے پاس نرانسفر کیا جائے، عدالت نے کہاکہ اس معاملے کی سماعت کسی تجربہ جوڈیشل افسر کے سامنے کی جانی چاہئے ۔
عدالت نے حکم دیا کہ آرڈر 7 رول 11 کے تحت دائر عرضی کا فیصلہ ضلع جج کو ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہوگا اور اس وقت تک عدالت کی جانب سے 17 مئی کو اس معاملے میں دیا گیا عبوری حکم جاری رہے گا۔
17 مئی کا عبوری حکم ضلع عدالت کے فیصلے تک اور اس کے بعد 8 ہفتوں تک نافذ رہے گا۔
سپریم کورٹ نے 17 مئی کے اپنے حکم میں کہا تھا کہ جس جگہ پر مبینہ ’شیولنگ‘ ملنے کا دعویٰ کیا گیا ہے اسے مکمل طور پر سیل کر دیا جائے اور مسلم فریق کو وضو اور نماز پڑھنے سے نہ روکا جائے۔ اب اس معاملے کی اگلی سماعت جولائی میں ہوگی۔
اس معاملے میں سول جج سینئر ڈویژن، وارانسی کے سامنے عرضی دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مغل حکمران اورنگ زیب نے بھگوان وشویشور کے مندر کو منہدم کرنے کے بعد گیان واپی مسجد بنائی تھی۔
مسلم فریق کی جانب سے آرڈر 7 رول 11 کے تحت مطالبہ کیا گیا تھا کہ ہندو فریق کی جانب سے دائر درخواست کو خارج کیا جائے۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ معاملہ صرف ضلع جج ہی دیکھیں گے۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ہم وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ سے وضو کے معاملے میں مناسب انتظامات کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
سماعت کے دوران، جسٹس چندر چوڑ نے تبصرہ کیا کہ مذہبی کردار کا پتہ لگانے پر کوئی روک نہیں ہے اور کسی جگہ کے مذہبی کردار کا پتہ لگانا عبادت گاہوں کے قانون کے قانون 3 یا 4 کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسے معاملات ہیں جہاں ہم اپنی رائے نہیں دیں گے۔
سماعت کے دوران جسٹس چندر چوڑ نے کچھ تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے پہلی تجویز یہ دی کہ ٹرائل کورٹ کو آرڈر 7 رول 11 کے تحت اس کیس میں دائر درخواست کو نمٹا دینا چاہیے۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ عدالت عبوری حکم جاری کرے اور یہ حکم آرڈر 7 رول 11 کے تحت درخواست کے نمٹانے تک برقرار رہے گا۔
جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ ان کے خیال میں تیسری تجویز یہ ہے کہ اس کیس کی سماعت صرف ڈسٹرکٹ جج ہی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز کی سماعت تجربہ کار لوگوں کے ذریعہ کیا جانا ہی بہتر ہوتاہے
انہوں نے کہا کہ اس سے اس معاملے میں شامل تمام فریقین کے مفادات کا تحفظ ہو گا۔
واضح رہے کہ جمعرات کو اس معاملے کی سماعت نہیں ہو سکی تھی۔ تاہم جب یہ معاملہ عدالت میں آیا تو سپریم کورٹ نے وارانسی کی نچلی عدالت کو جمعرات کو اس معاملے میں کوئی حکم جاری نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
مدعی کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ ویدیا ناتھن نے کہا کہ جہاں تک آرڈر 7 رول 11 کے تحت درخواست پر فیصلہ کرنے کا تعلق ہے، اس معاملے میں جائیداد کے مذہبی کردار کو بھی دیکھنا ہوگا اور اس کے لیے سروے ٹیم کی رپورٹ کودیکھا جانا چاہئے ۔
جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ جس میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس پی ایس نرسمہا بھی شامل ہیں، نے اس معاملے پر طویل بحث کی ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ آرڈر 7 رول 11 کو ٹھنڈے بستے میںڈال دیا جائے ۔
مسجد کمیٹی کی دلیل
مسجد کمیٹی کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ سروے ٹیم کی تقرری سے لے کر دیے گئے تمام احکامات غیر قانونی ہیں اور انہیں خارج کیا جانا چاہیے۔
احمدی نے کہا کہ انہوں نے جو درخواست دائر کی ہے وہ اس معاملے میں قائم کمیشن یا سروے ٹیم کے خلاف ہے اور ایسی چیزوں کو روکنے کے لیے 1991 کا عبادت گاہوں کا قانون نافذ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ کو منظم طریقے سے افشا کیا گیا ہے جس سے ایک تاثرپیدا کیا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 500 سال سے جو صورتحال تھی اس کو بدل دیا گیا ہے اور جمود کو بحال کیا جانا چاہئے ۔