تحریر : مسعودجاوید
بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے قیام کے وقت کہا تھا کہ ایسے اسکولوں، جہاں دینی مضامین نہیں پڑھائے جاتے ، کی کمی نہیں ہے۔ اس لئے دینی تعلیم کے لئے ہم مدرسے قائم کر رہے ہیں ۔ دیڑھ سو سال قبل کہی گئی وہ بات آج بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ مدارس دینیہ کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں اصلاح کی ضرورت ہے اس کا قطعاً یہ معنیٰ نہیں ہے کہ مدرسوں کو اسکول میں تحویل کر دیا جائے ۔
ملک میں سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں کی کمی نہیں ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے دینی مدارس میں ہائی اسکول تک کی تعلیم لازمی کرنے کا جو اعلان کیا ہے وہ بادی النظر میں کسی دباؤ کے نتیجے میں ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ ملت اسلامیہ ہند کے لئے قطعاً مفید نہیں ہے۔ نصاب تعلیم کی تشکیل ، ترتیب اور ترمیم برسہا برس کے غور وفکر اور متخصص کمیٹی کی بحث و تمحیص کے بعد عمل میں آتی ہے۔ ہمارے یہاں اسکول کے نصاب تعلیم کی تشکیل، ترتیب اور ترمیم کے لئے مستقل ایک اعلیٰ سطحی ادارہ National Council of Educational Research & Training دہلی میں واقع ہے جس میں تعلیم وتربیت کے ماہرین نصاب تعلیم اور اس کے لئے کتب مرتب اور مقرر کرتے ہیں ۔ دینی مدارس کے لئے بھی ایسے ہی ماہرین تعلیم وتربیت جو نہ صرف بیک وقت دینی علوم کی درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہوں اور عصری علوم کی دانشگاہوں کے گریجویٹس ہوں بلکہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم وتربیت سے اچھی واقفیت رکھتے ہوں ۔
دینی مدارس کے وجود میں آنے کے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر عجلت میں یا دباؤ میں ہائی اسکول تک کی لازمی تعلیم کا فیصلہ کرنا مدارس دینیہ کے جسم سے روح کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا۔ مدارس دینیہ کے نصاب و نظام میں اصلاح کرتے وقت بانی ام المدارس دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات بالخصوص ان کے مرتب کردہ اصول ہشتگانہ پیش نظر رکھنا ہوگا ۔ ١٨٥٧ سے قبل مدرسہ بمعنی سرکاری اسکول ہوتا تھا۔ آج کے مفہوم میں مدرسہ اور اسکول دو الگ الگ اکائیاں نہیں ہوتی تھیں۔ انگریزی استعمار نے اپنا زمام تسلط قائم کرنے کے بعد سرکاری مدرسوں کے نصاب تعلیم سے دینی مضامین نکال دیا اور اوقاف سے مدرسوں کو ملنے والی مالی اعانت بند کر دیا۔یعنی انگریزی حکومت نے سیکولر اسکول کا نظام شروع کیا بالفاظ دیگر مدرسوں کو باقی رکھا مگر دینی تعلیم کے مواد نکال دیا ۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے یہی ہونا تھا کہ ہندوستان سے دین اسلام رفتہ رفتہ نیست ونابود ہو جاتا۔ کیوں کہ عربی کے ایک مقولہ الناس على دين ملوكهم لوگ اپنے سرداروں کی اتباع کرتے ہیں پر عمل کرتے ہوئے کھانے پینے کے اطوار و عادات اور لباس و زبان میں انگریزوں کی نقل باعث عزت اور تعلیم یافتہ ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا تھا۔ مسلم حکومت، دولت وثروت ، شان و شوکت اور تہذیب و تمدن کے زوال کے ساتھ ساتھ دین پر بھی خطرہ منڈلانے لگا اور اسلامی تعلیمات پر اعتراضات ہونے لگے۔
ان سب کا راست اثر دینی تعلیم پر پڑنا فطری تھا۔ چنانچہ دینی تعلیم کا رجحان تیزی سے گھٹنے لگا تو ہمارے بیدار مغز علماء کے دلوں میں اسلامی تعلیمات کی بقاء و تحفظ ، کتاب وسنت کی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے لئے مدارس دینیہ کی بنیاد ڈالنے کا خیال آیا ۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء نے پورے بر صغیر میں آزاد دینی مدارس کا سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ کیا ۔