نی دہلی سپریم کورٹ میں حجاب پر بحث ساتویں روز بھی جاری رہی۔ پیر 19 ستمبر کو سینئر وکیل دشینت دوے نے حجاب کی حمایت میں کئی دلائل پیش کیے۔ انہوں نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوستان کو بہت سی ثقافتوں والے ملک کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے بغیر ہم کہیں نہیں ہوں گے۔ لائیو لا کے مطابق، انہوں نے کہا کہ کوئی بتائے کہ حجاب پہننے والی مسلم لڑکیاں ان کے جذبات کو بھڑکاتی ہیں۔
پہلے تو سارا تنازع لو جہاد پر تھا۔ اب مسلم لڑکیوں کے حجاب کو تعلیمی اداروں میں ایشو بنایا جا رہا ہے۔ یہ ایک کمیونٹی کوحاشیے پر دھکیلنے کا پیٹرن ہے ۔لائیو لاءکے مطابق پیر کو سماعت کے دوران سینئر وکیل دشینت دوے نے کہا: یہ یونیفارم کے بارے میں نہیں ہے۔ ہم آرمی اسکولوں کے ساتھ معاملہ نہیں کر رہے ہیں، ہم نازی اسکولوں کے ساتھ معاملہ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم پری یونیورسٹی کالجوں کے ساتھ ڈیل کر رہے ہیں۔دو ےنے کہا کہ یہ ملک ایک خوبصورت ثقافت پر بنا ہے…روایات پر بنا ہے۔
اور 5000 سالوں میں، ہم نے بہت سے مذاہب کو اپنایا… ہندوستان نے ہندو مت، بدھ مت اور جین مت کو جنم دیا۔ اسلام یہاں بغیر فتح کے آیا اور ہم نے قبول کر لیا۔ ہندوستان وہ واحد جگہ ہے جہاں یہاں آنے والے لوگ انگریزوں کو چھوڑ کر بغیر کسی فتح کے یہاں آباد ہو گئے۔ انہوں نے بحث کے دوران کہا کہ جس طرح سکھوں کے لیے پگڑی ضروری ہے اسی طرح مسلم خواتین کے لیے حجاب بھی ضروری ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ ان کا عقیدہ ہے۔ کوئی تلک لگانا چاہتا ہے، کوئی صلیب پہننا چاہتا ہے، سب کا حق ہے۔ یہ بھی سماجی زندگی کا حسن ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس عدالت کے لیے واحد مذہب ہندوستان کا آئین ہے۔ ہندوؤں کے لیے گیتا، مسلمانوں کے لیے قرآن، سکھوں کے لیے گرو گرنتھ صاحب اور عیسائیوں کے لیے بائبل جتنا اہم ہے۔ آئین کے بغیر ہم کہیں نہیں ہوں گے۔