کلیم الحفیظ۔نئی دہلی
بھارت کی تہذیب جس بنیاد پر قائم تھی وہ یہی عقیدہ تھا جس کا ذکرالطاف حسین حالی نے اپنے اِس شعر میں کیا ہے۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
تمام مذاہب کا یہ مشترکہ عقیدہ ہے کہ سب سے بڑی عبادت یہی ہے کہ انسان انسان کے کام آئے،اس کی خبر گیری کرے،اس کے دکھ میں اس کی خیر خواہی کرے،اس کی خوشیوں میں شریک ہوکر خوشیوں کو دوبا لا کرے۔ہندو دھرم کا وسودیوکٹمبھکم اوراسلام کا الخلق عیال اللہ یعنی ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے کامقصد یہی ہے کہ انسان کی خدمت اس کے دھرم اور عقیدے کو دیکھ کر نہیں کی جائے گی بلکہ صرف انسان ہونے کی وجہ سے کی جائے گی۔بھارت کی یہ تہذیب ہزاروں سال سے قائم تھی۔ابھی وہ لوگ زندہ ہیں اور وہ آنکھیں گواہ ہیں جنھوں نے انسانیت کی ان اعلیٰ قدروں کو برتا اور دیکھا ہے۔ایک ہی حقے کی ’نَے‘ سے ہندو اور مسلمان کش لیتے تھے، ایک دوسرے کے یہاں شادی بیاہ کی تمام رسومات میں سب شریک ہوتے تھے۔کالج اوراسکول میں ایک ہی بینچ پر پیٹر،اقبال اور شنکر بیٹھتے تھے۔کتنا خوش گوار دور تھا جب مسلمان کے گھر کی آگ بجھانے کے لیے گائوں کے ہندو دوڑپڑتے تھے اور ہندوئوں کے چھپر اٹھانے کے لیے مسلمانوں کے ہاتھ آگے بڑھتے تھے۔کتنی انسانیت تھی جب ہندو لڑکی ایک مسلمان کے گھر میں اور مسلم لڑکی ہندو کے گھر میں خود کو محفوظ تصور کرتی تھی ۔دنیا ہمیںتعجب بھری نظروں سے دیکھتی تھی جب دانش، شنکر کو اور راج کمار عبدل کوچاچا کہہ کر پکارتے تھے ۔
بد قسمتی سے اس وقت صورت حال بالکل بدل گئی ہے۔اب کسی جنیو دھاری اور تلک دھاری کو دیکھ کر مسلمان خوف زدہ ہوجاتے ہیں ،لمبی دارھی ،ٹوپی دیکھ کر غیر مسلموں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔وہ گیروا لباس جو امن و شانتی کا نشان تھا آج خوف و دہشت اور آتنک کا نشان بن گیا ہے۔وہ سادھو مہاراج جو سب کے بھلے کی کامنا کرتے تھے آج ’ملے کاٹے جائیں گے‘کا نعرہ لگاتے ہیں۔یہ سب ہماری موجودہ بھارتی حکومت کا کارنامہ ہے ۔اگر یہ حکومت کچھ برس اور رہی تو یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔اس کا جغرافیہ بدل ہوسکتا ہے۔ اس کی جگ ہنسائی تو ساری دنیا میں اب بھی ہورہی ہے لیکن اس حکومت کے رہتے ہم اپنا منھ بھی دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔عجیب بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں ہندو دھرم کی حفاظت کا احساس آج سب سے زیادہ پیدا ہورہا ہے جب کہ اس ملک پر پچھلے 75سال سے ہندوئوں کی حکمرانی ہے۔دراصل موجودہ حکومت اور اس کے آقائوں کا اپنا ایک ایجنڈا ہے جس کو وہ گزشتہ سات سال سے بزور طاقت نافذ کررہے ہیں ۔ان کا ایجنڈا محبت کے بجائے نفرت پر مبنی ہے۔ان کی سیاست انسانیت نہیں عداوت ہے۔
کسی بھی ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ اس کے عوام کے درمیان نفرت اور عداوت کے جذبات میں اضافہ ہے۔جب ملک کی عوام آپس میں مذہب،فرقہ،طبقہ،علاقہ کی بنیاد پر آپس میں عداوت کرنے لگے،جب وہ اونچ نیچ کی بنیاد پرتقسیم کردی جائے اور کمزوروں پر ظلم کیا جانے لگے تو اس ملک کی ترقی پر گرہن لگ جاتا ہے بلکہ اس عداوت میں شدت ملک کو کمزور کرتی ہے۔جس کا انجام کبھی کبھی ملک کو غلامی کی شکل میں دیکھنا پڑتا ہے۔جس کو ہم بھارتیوں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔ہم غلامی کا دور دیکھ چکے ہیں ۔اس کے بالمقابل اگر عوام کے درمیان محبت کے رشتے ہوتے ہیں تو ملک بڑے سے بڑے دشمن پر قابو پاسکتا ہے ،اس کو بھی ہم 1947میں اپنی آزادی کی شکل میں دیکھ چکے ہیں ۔
عوام کو یہ بات سمجھنی چاہئے اورسمجھائی جانی چاہئے کہ جو لوگ ملک کے شہریوں کوکسی بھی نام پر آپس میں لڑانے ،ان میں بھید بھائو کرنے کی بات کرتے ہیں ،وہ ملک کے وفادار ہرگزنہیں ہوسکتے۔آج جس طرح ہندو شدت پسندوں کی طرف سے کھلے عام جلسے ،جلوسوں میں نعرے لگائے جارہے ہیں،جس طرح کے بھاشن دیے جارہے اسی کے نتیجے میں ایک خاص طبقے کو نشانہ بنا کر لنچنگ کی جارہی ہے،نفرت بھرے ماحول کا یہ اثر صرف مسلمانوں کی جان کے نقصان پر ختم نہیں ہوتا بلکہ ان کی معاشی سرگرمیاں بھی متأثر ہوتی ہیں،ان کی تعلیم پر بھی اثر پڑ رہا ہے،ان کی صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔اس وقت سبزی فروش ،چوڑی فروش یا ٹھیلے پر گلی گلی گھوم کرسامان بیچنے والے مسلمان ہندو محلوں میں جانے سے گھبراتے ہیں۔مسلمان مزدوروں کو ہندو ٹھیکیدار مشکل سے ہی کام پر رکھتے ہیں۔تعصب کا یہ زہرکھُدرا مارکیٹ سے لے کر ہول سیل مارکیٹ تک پھیل گیا ہے۔اسی طرح تعلیم گاہوں میں مسلمان بچوں کے داخلے میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں ،یہاں تک کہ ہاسپٹل میں مسلمان مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج میں کوتاہی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔انسانیت کایہ وہ نقصان ہے جو موجودہ حکومت کی نفرت انگیز پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
مسلمانوں سے نفرت پیدا کرنا یا ان کو حاشیہ پر ڈالنا موجودہ حکومت کا عظیم ترین مقصد ہے۔لیکن اس کام میں اس کا ساتھ جمہوریت کے تمام ادارے دے رہے ہیں۔جمہوریت کے ایوان میں تو وہ خود بیٹھے ہیں اور من مانی قانون سازی کررہے ہیں۔عدلیہ خاموش تماشائی ہے،کبھی کبھی کسی جج کا ضمیر جاگ جاتا ہے اور حکومت کی سرزنش کردیتا ہے اس سے زیادہ وہ کربھی نہیں سکتا۔انتظامیہ کی باگ ڈور مقننہ کے ہاتھوں میں ہی ہوتی ہے،انتظامیہ میں ایک بڑی تعداد سنگھ کے اسکولوں کی تعلیم یافتہ ہے جس کی رگ رگ میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کا زہر ہے،رہی صحافت اور میڈیا تو وہ بھی جب سے قابل خرید وفروخت اشیاء کی فہرست میں شامل ہوئی ہے تب سے اس کا قلم ظلم کی حمایت میں اٹھنے لگا ہے۔
ان حالات کو کیسے بدلا جائے؟یہ اہم سوال ہے ؟اس لیے کہ حالات اگر نہیں بدلے گئے تو ملک کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔حالات کو بدلنے کے لیے حکومت سے کوئی امید لگانا حماقت ہے اس لیے کہ جس حکومت نے یہ حالات اپنی انتھک کوششوں سے پیدا کیے ہوں وہ ان کو بدلنے کے لیے کوئی کوشش کیوں کرے گی ،بلکہ وہ تو ہر اس قدم کی مخالفت کرے گی جو ملک میں بھائی چارے کے قیام اور انسانیت کو بچانے کے لیے اٹھایا جائے گا۔انتظامیہ اور عدلیہ سے بھی امید فضول ہے البتہ انتظامیہ اور عدلیہ کے وہ لوگ جن کا ضمیر ابھی زندہ ہے ان کو یکجا کرکے کوئی نتیجہ خیز قدم اٹھایاجاسکتا ہے۔میڈیا چونکہ بکائو ہے اس لیے یا تو اسے خرید کر انسانیت کی خدمت میں لگایا جائے یا پھر کوئی میڈیا ہائوس قائم کیا جائے ،میڈیا میں ایک تعداد ایسے صحافیوں کی ہے جن کے قلم سے سچائی کی آواز گاہے بگاہے سنائی دیتی ہے۔یہ تعداد بہت کم ہے ،کمزور ہے اس کو بھی منظم کرکے طاقت ور بنایا جاسکتا ہے۔مگر یہ کام بھی کون کرے؟یہ کام بھارت کے ان سپوتوں کی ذمہ داری ہے جو بھارت سے محبت کرتے ہیں ،جو موجودہ حالات پر فکر مند ہیں ،جن کی آنکھوں میں انسانیت کے دیے روشن ہیں،مجھے یقین ہے کہ ایسے افراد کی تعداد اچھی خاصی ہے جو انسانیت کی سیوا کو ہی سب سے بڑا دھرم مانتے ہیں۔اگر یہ لوگ منظم ہوجائیں تو ابھی بھی انسانیت کو بچایا جاسکتا ہے دوسرے الفاظ میں ملک کو بچایا جاسکتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)