نئی دہلی:(ایجنسی)
کافر (ملحد)، امت (مذہب کی پابند قومی برادری) اور جہاد (’جدوجہد‘ جسے اکثر مذاہب کی جنگ کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے) – یہ تین تصورات ہندوستانی معاشرے میں مسلمانوں کی شمولیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ کہنا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے عہدیدار رام مادھو کا ہے۔
آر ایس ایس کی نیشنل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن مادھو نے دی پرنٹ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ایک بار جب مسلمان’قبول‘ کر لیں گے کہ ان کی جڑیں ملک پر اسلامی حملے سے پہلے کی ہیں اور اسلام کی ’کافر‘ قرون وسطی کی تاریخ کو ترک کر دیں گے، ہندو بھی ’سیکڑوں سال پہلے ہونے والی تباہی‘ کے بارے میں بات کرنا چھوڑ دیں گے ۔
مادھو نے وادی میں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف جاری احتجاج کے درمیان ’متاثرین‘ کشمیری پنڈتوں کی بھی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وزیر اعظم کے پیکیج میں واپس آنے والے پنڈتوں کے لئے روزگار فراہم کرنے کی بات کی گئی ،’ لیکن سیکورٹی کہاں ہے‘ آر ایس ایس کے رہنما نے کہا کہ کشمیر سے متعلق بات چیت میں مقامی اسٹیک ہولڈرز کو شامل ہونا چاہئے۔ ’جب قتل و غارت ہو رہی ہے تو کوئی سیاسی قیادت نہیں ہے کہ وہ رابطہ کرے۔ وہ سب بیکار بیٹھے ہیں۔ ہمیں انہیں دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔‘
وارانسی کی گیان واپی مسجد پر جاری ہندو مسلم قانونی تنازع کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، ’گیان واپی ہم سب کو ایک بہت اچھا موقع دے رہی ہے۔ ہم (ہندو اور مسلمان) رام جنم بھومی کے معاملے میں اکٹھے ہو کر کسی قابل قبول معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔ ہم نے اسے عدالت پر چھوڑ دیا ہے۔ گیان واپی، کاشی وشواناتھ اور متھرا بہت اہم کیس ہیں۔ 1990 میں، ہم مل کر بابری مسجد کا مسئلہ حل کر سکتے تھے لیکن ہم اکٹھے نہیں ہو سکے اور ایک افسوسناک واقعہ (6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کا انہدام) ہو گیا۔
گیان واپی کیس پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا بیان، ’ہر مسجد میں شیولنگ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ کا ذکر کرتے ہوئے، مادھو نے کہا، ‘بھاگوت جی موجودہ مسئلہ (گیان واپی) پر بالکل واضح تھے۔ گیان واپی معاملے میں نہ تو آر ایس ایس اور نہ ہی اس سے منسلک کسی تنظیم نے کوئی مطالبہ اٹھایا ہے، لیکن یہ مطالبہ لوگوں کی طرف سے آیا ہے۔ اب یہ عدالت کے سامنے زیر التوا ہے اور عدلیہ میں مزید ایک دہائی لگ سکتی ہے۔ کیا ہم مل کر اسے حل کر سکتے ہیں؟ لیکن اکٹھے ہونے کے لیے مسلمانوں کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ یہ سب کچھ قرون وسطیٰ کی اسلامی یلغار کے دوران ہوا تھا۔ ہمیں ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا ہوگا۔ ایک بار ایسا ہونے کے بعد، ہندوؤں کو پرانے مسائل کو کھودنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور انہیں ہر مسجد میں کوئی شیولنگ بھی نہیں دیکھنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو تین چیزوں کو ترک کرنا ہوگا اور ان میں سب سے اہم غیر مسلموں کو کافر کہنا ہے۔
’اسلام کے پانچ ستون ہیں – دین سے لگن، دن میں پانچ وقت کی نماز، زکوٰۃ (لوگوں کی بھلائی کے لیے صدقہ)، رمضان کے مہینے میں روزے اورحج ۔ ان پر عمل کیجئے۔ اس ملک میں کوئی آپ کو (مسلمانوں) نہیں روکےگا ۔ تین اور چیزیں ہیں جو قومی معاشرے میں شمولیت کے بڑے مسئلے کی راہ میں حائل ہیں۔
مادھو نے کہا، ‘امت کا تصور جس کا مطلب ہے، ’ہم ایک الگ قوم ہیں، کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔‘ انہیں اسے چھوڑنا ہوگا۔ انہیں کافر کے پورے تصور پر عقیدہ چھوڑنا ہوگا۔ ان کے نزدیک غیر مسلم کافر یا گنہگار ہیں۔ روزمرہ کی زبان میں کوئی کافر نہیں ہے۔ انہیں اس کا استعمال بند کرنا ہوگا اور پھر انہیں جہاد کا راستہ ترک کرنا ہوگا۔ اگر یہ جہاد ہے تو اندرونی جہاد ہونا چاہیے۔ بہت سے مسلمان علماء کہتے ہیں کہ ’جہاد اندرونی ہونا چاہیے‘۔ جہاد کا مطلب یہ نہیں کہ تم دوسرے مذاہب کے لوگوں کو قتل کرو۔‘
‘ہندوستانی بنو، اسلامی حملہ آوروں کے ساتھ تعلق بند کرو
مادھو نے کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ’’سمجھنا اور قبول کرنا ہوگا‘‘ کہ وہ اس سرزمین کا حصہ ہیں اور انہیں اسلامی حملہ آوروں کے’’غلط کاموں‘‘ کی مذمت کرنی ہوگی۔
مادھو نے زور دے کر کہا،’ ‘اسلام حملہ آوروں کے ذریعے آیا۔ بت توڑنا قرون وسطیٰ کے اسلام کا ایک لازمی حصہ تھا۔ انہوں نے نہ صرف ہندوستان میں ہندوؤں کے ساتھ بلکہ یورپ کے عیسائیوں اور اسرائیل میں یہودیوں کے ساتھ بھی ایسا کیا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے آباؤ اجداد بھی شاید مسلمان نہیں تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بعد میں تبدیل ہو گئے ہوں، لیکن اسلامی تاریخ کا وہ حصہ اس کی گردن میں ایک البیٹراس کی طرح پڑا رہا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ انہیں اسے (تاریخ کو) ڈھونے کی ضرورت نہیں ہے ‘۔
اسلام کے انڈونیشین ماڈل کی مثال دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ایک مندر کمپلیکس انڈونیشیائیوں نے بنایا تھا اور مسلمان یہاں تاریخ پر بحث کر رہے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو آگے آنا چاہئے اور حملہ آوروں کے قرون وسطیٰ کے بت توڑنے کو قبول کرنا چاہئے۔ جس دن ایسا ہو جائے گا ہمارے آدھے مسائل حل ہو جائیں گے۔
‘میں ایک موازنہ کرتا ہوں۔ ہمارے یہاں عیسائیوں کی بڑی تعداد ہے۔ عیسائیت انگریزوں کے ساتھ آئی اور اسے اینگلو کلچر کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا عیسائی خود کو انگریزوں سے جوڑتے ہیں؟ کیا وہ برطانوی ورثے کو اپنانے پر اصرار کرتے ہیں؟ نہیں، وہ ایسا نہیں کرتے۔ مذہب چلتا رہتا ہے لیکن انگریزوں کے اقدامات کی حمایت کوئی نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ وہ کھڑے ہو کرکیوں نہیں کہتے کہ وہ حملوں کی اس تاریخ کی حمایت نہیں کرتے؟ ایک بار ایسا ہو گیا تو ہندو بھی سینکڑوں سال پہلے ہونے والی تباہی کے بارے میں بات کرنا چھوڑ دیں گے، جیسا کہ بھاگوت جی نے ٹھیک کہا ہے۔ لیکن وہ ہندوؤں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ خاموش رہیں گے، کہ ان میں کوئی مذہبی جذبات پیدا نہیں ہوں گے، اور وہ اپنے آپ کو اسلام کی کافر تاریخ سے جوڑتے رہیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح ہم آہنگی حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔
اس تناظر میں، مادھو نے ہندو سماج میں ایک ’عام بیداری‘ کا حوالہ دیا، اور کہا کہ ہندو اب اپنی تہذیب پر فخر کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی اور ممتا بنرجی جیسے سیاست دان اپنی ہندو شناخت پر دوبارہ زور دے رہے ہیں۔ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ انتقامی کارروائی نہیں ہے بلکہ ایک بڑے سوال کے بارے میں ہے۔ کیا ہم اسی معاشرے کا حصہ ہیں، یا ہم میں سے کچھ اپنے آپ کو انگریزوں یا مغلوں سے جوڑتے ہیں؟ کیا ہمیں اس طرح جینا چاہیے؟
انہوں نے مزید کہا، ‘ہم بھی ہم آہنگی سے رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھاگوت جی ایک ساتھ بیٹھ کر بات چیت شروع کرنے پر اتنا زور دے رہے تھے۔ یہ کسی سیاسی پارٹی یا حکومت کے ذریعے نہیں ہو گا۔ ہمیں اس کی شروعات کرنی ہوگی۔ لیکن اس سے پہلے شرط یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد اسی ملک سے ہیں اور انہیں قرون وسطیٰ کے اسلامی حملہ آوروں کا سلسلہ چھوڑنا پڑے گا۔
(بشکریہ: دی پرنٹ )