نئی دہلی :
بھارت اور پاکستان کے مابین مسئلہ کشمیر پر 2019 سے تنائو جاری ہے۔ اس تعطل کو توڑنے کے لئے جنوری میں دونوں ممالک کے انٹلیجنس حکام کے ایک اہم خفیہ اجلاس دبئی میں ہوا تھا۔
پلوامہ میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے قافلے پر14 فروری 2019 کو دہشت گردوں کے حملے وبھارت کی طرف سے کی گئی جوابی کارروائی کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے رشتوں میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی جو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کوہٹائے بنانے کے بعد یہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے دوطرفہ تجارت معطل کردیا۔
بھارت اورپاکستان نے تقریباً ڈھائی سال سے جاری تعطل کو ختم کرنے کے لئے حالیہ مہینوں میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت بات چیت کا دوبارہ آغاز کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے بھارت پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں نے دبئی میں بات چیت کی۔ دراصل دونوں ممالک کے مابین کشمیر ہمیشہ ہی ایک مسئلہ رہا ہے۔
را- آئی ایس آئی کے عہدیدار بھی تھے شامل
بھارت اور پاکستان کے مابین جنوری میں دبئی میں ہونے والے خفیہ اجلاس سے آگاہ افراد کا کہنا تھا کہ اس خفیہ میٹنگ میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور پاکستان کے آئی ایس آئی کے عہدیدار شریک تھے۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت بھی اس اجلاس کے انعقاد میں مدد فراہم کی تھی۔
دونوں ممالک نے تصدیق نہیں کی
اس خفیہ ملاقات کے بارے میں نہ تو ہندوستانی حکومت اور نہ ہی پاکستانی حکومت نے کوئی تبصرہ کیا ہے۔ حالانکہ پاکستان کے دفاعی امور کی ایک اعلیٰ تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے انٹیلی جنس عہدیداروں کی ملاقات کچھ مہینوں سے کسی تیسرے ملک میں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق تھائی لینڈ، دبئی اور لندن میں اعلیٰ سطح کے اجلاس منعقد ہوئے ہیں۔ عائشہ صدیقہ کا ماننا ہے کہ ماضی میں بھی جب ضرورت محسوس ہوئی تو دونوں ممالک کے مابین اس طرح کی خفیہ ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں ، لیکن ان کو کبھی بھی عوامی طور پر قبول نہیں کیا گیا۔
بھارت پاکستان کو ان چیلنجوں کا سامنا
ہندوستان اور پاکستان اپنے تعلقات معمول پر لانے کے حق میں ہیں۔ بھارت چین کے ساتھ سرحدی تنازع میں الجھا ہوا ہے اور وہ پاکستان کی سرحد پر کسی جھنجھٹ میں پھنسنا نہیں چاہتا ہے۔ وہیں چین کا دوست پاکستان کی معیشت بھی بحران کا شکار ہے اور وہ جلدسے جلداس سےابھرنے کی کوشش میں ہے۔ساتھ ہی وہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد اپنے مغربی سرحدی دفاع کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔