سراج الدین فلاحی
2016 میں ملک کے سینٹرل بینک RBI نے مالیاتی امور کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی وضع کی جس کا نام مونیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) ہے۔یہ کمیٹی ہر دو ماہ کے بعد مالیاتی کارکردگیوں کا جائزہ لے کر اپنی رپوٹ پیش کرتی ہے اور معاشی پالیسی بناتی ہے۔ کمیٹی کے مطابق ملک کے اندر افراط زر یعنی مہنگائی (Inflation) دو سے چھ فیصد کے درمیان ہونی چاہیے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ مہنگائی اگر دو فیصد سے کم رہتی ہے تو یہ صورت حال انڈیا جیسے کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لئے بھیانک تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس سے GDP کا گروتھ رک جاتا ہے۔ اور جب یہ چھ فیصد سے زیادہ ہو جاتی ہے تو کرنسی کی ویلیو کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے زیادہ پیسے دے کر کم سامان ملتے ہیں نتیجتا ایکسپورٹ گر جاتا ہے اور اس کے بعد فارن ایکسچینج کا مسئلہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ یہ بھی معیشت کے لئے کسی وبال جان سے کم نہیں ہے۔ معیشت سے متعلق خبروں پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہوں گے کہ حال ہی میں منسٹری آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے Inflation یعنی مہنگائی کا آنکڑا جاری کیا ہےجس کے مطابق مارچ 2021 میں مہنگائی در 7.39 فیصد ہو گئی ہے۔ یعنی گذشتہ سال جس سامان کو آپ 100 روپیہ میں خریدتے تھے اب وہ آپ کو 107.39 روپیہ میں مل رہا ہے۔ یہ گذشتہ آٹھ سالوں میں مہنگائی کی سب سے اونچی سطح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہنگائی مونیٹری پالیسی کی بیش ترین سطح سے بھی زیادہ ہے۔ مہنگائی کی اس بلند ترین شرح میں خوراک اورتوانائی کی مہنگائی کا بنیادی کردار ہے۔ اس مہنگائی نے عام لوگوں کی زندگیوں پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔ملک کی GDP کے ریکارڈ سطح تک گرنے کے بعد اب مستقبل قریب کے تعلق سے ماہرین معاشیات طرح طرح کے خدشے ظاہر کر رہے ہیں۔ سی لئے کووڈ وبا کی موجودہ ہنگامی صورت حال میں جب مستقبل قریب میں گروتھ کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتاحکومت کو اشیاء ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں اور معاشی چیلینجز سے نمٹنا کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہے۔ موجودہ مالیاتی سال 2021-22 میں مونیٹری پالیسی کمیٹی کی پہلی رپوٹ آ چکی ہے۔ مہنگائی کے مدنظر امید کی جارہی تھی کہ کمیٹی ریپو (Repo Rate) اور ریورس ریپو ریٹ(Reverse Repo Rate) بڑھائے گی جو پہلے ہی بالترتیب 4 فیصد اور 3.35 فیصد تھا۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔4 فیصد ریپو ریٹ اور 3.35 فیصد ریورس ریپو ریٹ بہت کم مانا جاتا ہے۔ قبل اس کے کہ ہم مہنگائی کا ریپو ریٹ اور ریورس ریپو ریٹ سے تعلق بیان کریں پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ بہت زیادہ دباؤ کے باوجود RBI نے ریپو ریٹ نہیں بڑھایا۔ RBI کا کہنا ہے کہ جب تک ہماری معیشت جو مندی کا شکار تھی اس سے نکل نہیں جاتی اس وقت تک ہم اسے نہیں بڑھائیں گے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ لون سستا ہو گا تو لوگ لون لے کر انویسٹ کریں گے اور معیشت مندی سے نکل جائے گی۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ریپو اور ریورس ریپو ریٹ کا مہنگائی سے کیا تعلق ہے۔ ریپو ریٹ وہ شرح سود ہے جس پر RBI کمرشیل بینکوں کو مختصر مدتی لون دیتا ہے۔ یا کمرشیل بینک اپنے Liquidity Status کو درست کرنے کے لئے RBI سے لون لیتے ہیں۔ جب معیشت میں افراط زر (Inflation) کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو RBI ریپو ریٹ بڑھا دیتا ہے جس کی وجہ سے لون لینا مہنگا ہو جاتا ہے۔ مہنگے لون کی وجہ سے اس کی ڈیمانڈ کم ہو جاتی ہے لہذا معیشت میں منی سپلائی کم ہو جاتی ہے۔ منی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید (Purchasing Power) کم ہو جاتی ہے اور جب قوت خرید کم ہوتی ہے تو اشیاء اور خدمات کے لئے ڈیمانڈ بھی کم ہو جاتی ہے نتیجتا افراط زر کنٹرول میں آ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جب معیشت میں قلت زر (Deflation) کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو RBI ریپو ریٹ کم کر دیتا ہے جس کی وجہ سے لون سستا ہو جاتا ہے۔ سستا لون منی کی ڈٖیمانڈ میں اضافہ کا سبب بن جاتا ہے۔ جب معیشت میں منی کا فلو بڑھتا ہے تو قوت خرید بڑھتی ہے لہذا اشیاء اور خدمات کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے اور قلت زر کا مسئلہ کم ہو جاتا ہے۔ ریورس ریپو ریٹ اس شرح سود کو کہتے ہیں جس پر RBI کمرشیل بینکوں سے لون لیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے ایسے سمجھیں کہ جب کمرشیل بینکوں کے پاس لون دینے کے بعد پیسہ بچ جاتا ہے تو وہ اسےRBI کے پاس رکھ دیتے ہیں اور سود لیتے ہیں۔ معیشت میں منی سپلائی یا افراط زر (Inflation) کو کم کرنے کے لئے RBI ریورس ریپو ریٹ کو بڑھا دیتا ہے چنانچہ کمرشیل بینک زیادہ سود کی لالچ میں مرکزی بینک کے پاس زیادہ فنڈ رکھنے لگتے ہیں۔ یہ عمل کمرشیل بینکوں کے لون دینے کی قوت کو گھٹا دیتا ہے نتیجتا وہ عوام کو لون نہیں دے پاتے۔ اس طرح معیشت میں پیسے کا فلو کم ہو جاتا ہے۔ قلت زر (Deflation) کی حالت میں RBI ریورس ریپو ریٹ کم کر دیتا ہے۔ کمرشیل بینک اپنا فنڈ RBI کے پاس نہ رکھ کر عوام کو دیتے ہیں۔ منی سپلائی بڑھ جاتی ہے اور قلت زر کی صورت حال ختم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ موجودہ صورت حال میں اگر حکومت ریپو ریٹ بڑھاتی ہے تو منی کا فلو کم ہو جائے گا جس کی وجہ سے GDP گروتھ پر منفی اثر پڑے گا۔ اس کے برعکس اگر ریپو ریٹ کم کرتی ہے تو معیشت میں پیسے کا فلو بڑھ جائے گا جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھ جائے گی۔ یعنی سرکار کے آگے کنواں اور پیچھے کھائی والا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ دھیان رہے کہ اگر مہنگائی زیادہ ہوتی ہے توشرح سود منفی ہو جاتا ہے۔مطلب اگر آپ اپنا پیسہ بینک میں جمع کر رہے ہیں اور وہاں شرح سود 4 فیصد ہے اور اگر معیشت میں مہنگائی 7 فیصد ہے تو آپ کو 3 فیصد کا براہ راست نقصان ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نوے فیصد ورکرس (Workforce) غیر رسمی شعبے میں ہیں جس میں دیہاڑی مزدور، بے زمین کسان، سبزی اور پھل فروش وغیرہ شامل ہیں۔ یہ روزانہ کنواں کھودتے ہیں اور پانی پیتے ہیں۔ یہ بینک سے لون نہیں لیتے چاہے لون سستا ہو یا مہنگا۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ان کی آمدنی پر خوراک کے اخراجات کا بڑھتا بوجھ ہے۔ موجودہ حالات میں تو ان کی مکمل آمدنی خوراک جیسی بنیادی ضرورت کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اس لئے غذائی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لئے حکومت کو متعدد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بطور خاص ان کے ایکسپورٹ پر پابندی لگائے، پیاز، دال وغیرہ پر ذخیرہ اندوزی کی ایک حد مقرر کرئے۔ اس کے لئے حکومت کو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے۔ کیونکہ فوڈ آیئٹم کی قیمتوں میں اضافہ غربت کے اضافے میں بنیادی عنصر کے طور پر کام کرتا ہے۔ ان کے علاوہ چونکہ بازاروں میں سناٹا چھایا ہوا ہے اس لئے نہ صرف چھوٹے کاروباری جمود کا شکار ہیں بلکہ گھریلو صنعتوں کا بھی برا حال ہے وہ تقریبا بند پڑی ہیں۔ حکومت کا حال یہ ہے کہ اس نے اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی کے لئے نہایت ہی چالاکی سے موجودہ معاشی بحران کی ذمہ داری کووڈ پر ڈال کر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے حالانکہ ہماری معیشت کو جتنا نقصان اس وبا سے نہیں پہنچا اس سے کہیں زیادہ حکومت کی غلط پالیسیوں سے ہوا ہے۔