امریکہ کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے انڈیا کے دورے سے ایک روز قبل امریکی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ انڈین رہنماؤں سے اپنی بات چیت میں جمہوریت اور حقوق انسانی کا سوال اٹھائیں گے۔
انڈیا نے اس کے ردعمل میں کہا ہے کہ ایک جمہوری ملک ہونے کی حیثیت سے انڈیا ہمیشہ ان ملکوں سے تبادلہ خیال کے لیے تیار ہے جو اب اکثریت کی اہمیت کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔
انتھونی بلنکن منگل کو انڈیا کے دو روزہ دورے پر دلی پہنچ رہے ہیں۔ وہ وزیراعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال سے ملاقات کریں گے۔
وزارت خارجہ کے مطابق ان ملاقاتوں میں دیگر امور کے علاوہ افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا اور شدت پسند تنظیموں کی معاونت نہ کرنے کے لیے پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے جیسے معاملات پر توجہ مرکوز رہے گی۔
انڈیا کا خیال تھا کہ امریکی وزیر خارجہ کے اس دورے کو وہ افغانستان کی صورتحال اور چین سے کشیدگی کے پس منظر میں ایک اہم میٹنگ کے طور پر پیش کر سکے گا لیکن جمہوریت اور حقوق انسانی کا ذکر آنے سے اس کے اس تصور کو ٹھیس پہنچی ہے۔
امریکہ کی نئی انتظامیہ احتجاج کرنے والے کسانوں سے بات کرنے اور غیر سرکاری رضا کار تنظیموں کی غیر ملکی فنڈنگ بحال کرنے پر زور دیتی رہی ہے۔ امریکہ شہریت کے نئے قانون اور انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں جمہوری حقوق کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکی افواج افغانستان سے پوری طرح نکل جانے کی تیاریاں کر رہی ہیں اور طالبان ملک کے مختلف حصوں میں پیشرفت کر رہے ہیں، ایسے میں تجزیہ کاروں کے مطابق انڈیا بین الاقوامی سطح پر خود کو سفارتی طور پر تنہا محسوس کر رہا ہے۔
افغانستان کے سیاسی تغیر اور امن کے عمل میں افغانستان کے ساتھ امریکہ اور بالخصوص پاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے لیکن اس عمل میں انڈیا کہیں شامل نہیں۔
ملک کی معروف تجزیہ کار اور ’فورس‘ میگزین کی مدیر غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ انڈیا افغانستان پر ہونے والی بات چیت کی میز پر اپنی جگہ ڈھونڈ رہا ہے۔
’انڈیا کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ گزشتہ کئی برس سے افغانستان پر جو مذاکرات ہو رہے تھے۔ انڈیا ان میں کہیں نہیں تھا۔ اب وہ زبردستی اپنا کردار ڈھونڈ رہا ہے۔‘
غزالہ مزید کہتی ہیں ’انڈیا نے اپنے دماغ میں یہ وہم پال رکھا ہے کہ افغانستان کی صورتحال کا اثر کشمیر میں شدت پسندی پر پڑے گا۔‘
وہ کہتی ہیں ’ہم نے طالبان کو شروع سے ہی ایک ہوا بنا رکھا ہے کہ طالبان دہشت گرد ہیں اور وہ ایک بار افغانستان پر قابض ہو گئے تو وہ افغانستان سے باہر نکلیں گے، پھر وہ کشمیر آئیں گے۔ طالبان کا مفاد افغانستان میں ہے، انھیں افغانستان کا اقتدار چاہیے۔ ان کا مفاد افغانستان تک محدود ہے۔‘
غزالہ کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کا اصل راستہ پاکستان سے ہو کر جاتا ہے۔ جو ممالک بھی اس وقت افغانستان میں شامل ہیں ان کا افغانستان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ صرف پاکستان اس صورتحال میں ایک اہم کردار ہے۔‘
ڈاکٹر بلقیس نوے کے عشرے میں افغانستان کی لڑائی کے دوران دس برس تک پشاور میں پناہ گزین رہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب وہ انڈیا کی معروف جندل یونیورسٹی میں افغان امور کی پروفیسر ہیں۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انڈیا کی صورتحال بہت چیلنجنگ ہے اور ماضی کی طالبان پالیسی کے سبب اسے مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’اگر طالبان طاقت کے زور پر افغانستان میں اقتدار میں آتے ہیں تو انڈیا کے لیے ان سے تعلقات استوار کرنا بڑا مشکل ہو گا لیکن اگر وہ کسی سیاسی مفاہمت یا کسی اقتدار میں حصے داری کے کسی معاہدے کے تحت وہ کابل کے اقتدار میں آتے ہیں تو انڈیا کو ضرور ان سے تعلق رکھنا چاہيے۔‘
سابق سفارت کار وویک کاٹجو افغانستان میں انڈیا کے سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ ایک عرصے سے انڈیا کی حکومت پر زور دیتے رہے ہیں کہ جب پوری دنیا طالبان کو تسلیم کر رہی ہے تو انڈیا کو بھی طالبان سے کھل کر بات کرنی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم طالبان کے نظریے یا ان کے پر تشدد طریقہ کار کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح دنیا سفارت کاری کرتی ہے اسی طرح آپ بھی کیجیے۔ ان سے کھل کر بات چیت ہونی چاہیے۔ جو ہمارے خیالات ہیں اور جو ہماری حدیں ہیں، ہمیں ان کو صاف طور پر بتانا چاہیے۔‘
فی الحال انڈیا افغانستان کی اسی کشمکش میں اپنا مقام تلاش کر رہا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کرنا چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ اپنی پوزیشن بھی واضح نہ کرے اور اس کا کام بھی چلتا رہے۔
تجزیہ کار غزالہ وہاب کے خیال میں انڈیا خود اپنی صورتحال ’پیچیدہ‘ بنا رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’صورتحال بہت صاف دکھائی دے رہی ہے، امریکہ کو بھی دکھائی دے رہی ہے۔ انڈیا اب بھی یہی امید کر رہا ہے کہ افغانستان میں کوئی معجزہ ہو جائے، حکومت برقرار رہے اور طالبان اقتدار پر قبضہ نہ کر سکیں۔‘
(بشکریہ: بی بی سی )