آپ کو معلوم ہوگا کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔
گذشتہ ماہ ایپل، نیٹ فلکس، ایمازون، مائیکروسافٹ، میٹا (فیس بُک کی مالک کمپنی) اور الفابیٹ (یعنی گوگل) سمیت اس صنعت کے بڑے ناموں کو امریکی سٹاک مارکیٹ پر گذشتہ 12 ماہ کے دوران تین ٹریلین (30 کھرب) ڈالر سے زیادہ کا نقصان جھیلنا پڑا۔
ای کامرس کمپنی ایمازون نے اعلان کیا کہ وہ دنیا بھر میں 21 نومبر تک اپنے عملے سے ایک لاکھ چھتیس ہزار افراد کی کٹوتی کرنے جا رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار ویب سائٹ Layoffs.fyi نے دیے جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں نوکریوں میں کٹوتی پر نظر رکھتی ہے۔
سب سے نمایاں کٹوتیاں میٹا نے کیں جس نے 11 ہزار کا عملہ فارغ کر دیا جبکہ ٹوئٹر نے اب تک 37 ہزار لوگ نکالے ہیں (جو اس کے پورے عملے کا نصف بنتا ہے
اس سے یہ سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں کہ دنیا کے دو بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک اور ٹوئٹر کا مستقبل کیا ہے۔ کیا یہ ہماری توقعات کے برعکس کمزور ہو چکے ہیں؟
اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشی بحران کی وجہ سے ٹیکنالوجی کو بھی اتنا ہی نقصان پہنچا ہے جتنا کسی دوسرے شعبے کو۔
اس کا مطلب ہے کہ کاروبار میں پھر کم پیسہ لگایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اشتہارات دینے میں کمی آئی ہے۔
نیو یارک کولمبیا بزنس سکول میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کے ماہر پروفیسر جوناتھن نی کا کہنا ہے کہ ’جو کوئی بھی اس وقت ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری لانے کی کوشش کر رہا ہے، اسے فی الحال بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔‘
پروفیسر نی کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنیادی طور پر تشہیر کے لیے قائم کاروبار بن گئے ہیں۔ ’اگر آپ کو انحصار اس آمدن پر ہوتا ہے تو معاشی بحران سے آپ کے لیے ماحول سازگار نہیں رہتا۔‘
اکتوبر میں جاری میٹا کی حالیہ مالیاتی رپورٹ کے مطابق اشتہارات کی آمدن میں کمی سے کمپنی کے لیے مشکلات بڑھی ہیں تاہم اس میں ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کے استعمال میں اضافہ اور بڑھتا مقابلہ بھی اہم عوامل میں سے ہے۔
ارب پتی ایلون مسک کی جانب سے ٹوئٹر خریدے جانے کے بعد اسے سٹاک مارکیٹ سے ہٹایا جا چکا ہے۔ ایلون مسک کے متنازع فیصلوں اور جارحانہ قیادت کے ہوتے ہوئے ٹوئٹر کو بھی ایسے ہی چیلنجز کا سامنا ہے۔
ایلون مسک نے صارفین کے ایک پول کے بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بحال کر دیا۔ آٹھ جنوری کو کیپیٹل ہِل ہنگامہ آرائی کے بعد ٹوئٹر نے ان پر پابندی لگا دی تھی۔
مگر مسک کے آنے سے پہلے ہی ٹوئٹر کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بج چکی تھیں۔ اکتوبر میں خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے حاصل کیے گئے دستاویزات کے مطابق کووڈ کی عالمی وبا کے بعد سے ان لوگوں کی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے جو بہت زیادہ ٹویٹ کیا کرتے تھے (ہیوی ٹویٹرز سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہفتے میں چھ سے سات بار لاگ اِن کرتے ہیں اور ہفتے میں تین سے چار بار ٹویٹ کرتے ہیں)۔
روئٹرز نے ایک ٹوئٹر ریسرچر کے حوالے سے بتایا کہ ٹوئٹر کو زیادہ استعمال کرنے والے صارفین مجموعی صارفین کا 10 فیصد سے بھی کم حصہ بنتے ہیں مگر 90 فیصد تمام ٹویٹس کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور پلیٹ فارم کی عالمی آمدن میں ان کا نصف حصہ ہوتا ہے۔
مسک کے آنے سے ٹوئٹر کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ تین نومبر کو شائع ایم آئی ٹی کے محققین کی ایک تحقیق کے مطابق ٹوئٹر نے اس دورانیے میں تقریباً دس لاکھ صارفین کھو دیے ہیں۔
برطانیہ میں یونیورسٹی آف شفیلڈ کی ڈاکٹر لینروئی جیا کو فیس بک اور ٹوئٹر کے زوال کی واضح علامات نظر آ رہی ہیں۔ ’ہم نے ان پلیٹ فارمز کی لمبی عمر کو نظر انداز کیا ہے۔ صارفین کو اب ان میں موجود مسائل کا علم ہونے لگا ہے اور وہ انھیں جانچ کر دوسرے پلیٹ فارمز کی طرف بڑھنے لگے ہیں۔‘اسی دہائی کے دوران گوگل کا حمایت یافتہ اورکٹ دنیا کا سب سے بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن گیا تھا۔ پھر مارک زکربرگ کے فیس بُک سے اس کی ٹکر ہوئی اور 2014 کے دوران یہ پلیٹ فارم بند ہوگیا۔ماہرین مستقبل کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں
(بشکریہ بی بی سی)
۔