تحریر:کلیم الحفیظ
اسی ہفتے ہری دوار میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک شری موہن بھاگوت جی نے کہا کہ یوں تو اکھنڈ بھارت کا منصوبہ بیس سال سے پچیس سال میں پورا ہوگا لیکن اگر آپ لوگ محنت کریں تو دس سے پندرہ سال میں بھی اکھنڈ بھارت بن جائے گا۔اسی کے ساتھ انھوں نے کہا کہ جو بھی اس راہ میں رکاوٹ بنے گا وہ مٹ جائے گا۔ان کی پہلی بات سے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ہر تنظیم اپنے سپنوں کا بھارت بنانا چاہتی ہے ۔وہ اگر بھارتی آئین کے تحت اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرے تو کسی کو کیا غرض۔لیکن ان کا دوسرا جملہ قابل اعتراض ہی نہیں بلکہ بھارت کے آئین کے خلاف ہے ۔وہ جملہ ایک طرح سے دھمکی ہے ۔یہ جملہ موجودہ نفرت والے ماحول کی حمایت ہے ۔اس کے ذریعے موصوف نے ہندوئوں کو تشدد پر اکسایا ہے۔وہ اپنے مخالفین کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اکھنڈ بھارت کی راہ میں جو آئے گا اسے مٹا دیا جائے گا۔
اکھنڈ بھارت کا راگ کوئی نیا نہیں ہے اس سے پہلے بھی سنگھ کے ذمہ داران اپنی تقریروں میں یہ باتیں کرتے رہے ہیں ۔یہاں تک ان کے پبلشرز نے اکھنڈ بھارت کے نقشے بھی شائع کیے ہیں۔اکھنڈ بھارت سے مراد وہ بھارت ہے۔جس میں افغانستان،برما،بھوٹان ،تبت،پاکستان،سری لنکا ،نیپال اور بنگلہ دیش شامل ہے۔اکھنڈ بھارت کا راگ الاپنے والے جانتے ہیں کہ یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔لیکن وہ یہ راگ اس لیے الاپتے ہیں تاکہ ان کے بھکت مطمئن رہیں اور خوش ہوتے رہیں کہ اکھنڈ بھارت پر ان کی حکمرانی ہوجائے گی ۔سنگھ اسی طرح کا خواب یہ دکھاتا رہاہے کہ سی اے اے اور این آرسی میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ملک بدر ہونا پڑے گا اس وقت مسلمانوں کی زمین جائداد اور کھیت کھلیان پر ہندوئوں کا قبضہ ہوجائے گا ۔بعض لوگ تو مسلمانوں کی بڑی بڑی حویلیاں دیکھ کر من ہی من میں سوچتے ہیں کہ کچھ دن بعد اس پر ان کا ادھیکار ہوگا۔لیکن کیا یہ ممکن بھی ہے کہ اکھنڈ بھارت بن جائے اور وہ بھی موجودہ حکومت کے تحت۔کس قانون کے تحت اکھنڈ بھارت بنایا جائے گا؟کیا کسی آزاد ملک کو اپنے ملک میں شامل کرلینا آسان ہے ؟کیا بین الاقوامی قوانین میں اس کی کوئی گنجائش ہے؟عراق نے چاہاتھا کہ کویت پر حملہ کرکے اسے اپنے اندر ضم کرلے ،تو وہ برباد ہوگیا۔اب روس چاہتا ہے کہ یوکرین کو اپنے اندر ضم کرلے تو اسے ناکوں چنے چبانے پڑ رہے ہیں ۔وہ افغانستان جس نے دنیا کی تین سپر پاورز کو شکست سے دوچار کیا اس افغانستان کو بھاگوت جی کہتے ہیں کہ بھارت میں شامل کریں گے۔ کیا وہ ممالک جن کو ہم اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ہندو راشٹر کا حصہ بننے کے لیے راضی ہوجائیں گے ۔کیا پاکستان کی بھارت دشمنی کو دیکھتے ہوئے خواب میں بھی ایسا ممکن ہے؟جو ملک کشمیر کو آزاد نہ کراسکا ہو،جس ملک کاہزاروں کلومیٹر کا علاقہ چین نے چھین لیا ہو۔جس ملک کی بعض ریاستیں الگ ہونا چاہتی ہوں،اس ملک کے لیے یہ سوچنا بھی مذاق لگتا ہے کہ وہ ملک اپنے ہمسایہ ممالک کو اپنے ساتھ شامل کرلیگا۔جس ملک کے رہنے والے آپس میں دست بہ گریباں ہوں،جہاں نفرت اور دشمنی اس قدر عروج پر ہو کہ ایک کو دوسرے کا وجود برداشت نہ ہواس ملک کے باشندے کسی دوسرے ملک کے لوگوں کو کس طرح برداشت کریں گے ؟اس لیے کہ نفرت،عداوت،تشدد،ظلم و زیادتی جوڑنے کا نہیں توڑنے کا کام کرتی ہیں۔
اکھند بھارت کا یہ شوشہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے بھی چھوڑا جاتا ہے۔لیکن انھیں شاید معلوم نہیں کہ اکھنڈ بھارت کا سب سے زیادہ فائدہ مسلمانوں کو ہی ہونے والا ہے۔تقسیم ملک کے نتیجے میں مسلمانوں کی تقسیم ہوئی اور رشتے دار ایک دوسرے سے ملنے سے بھی ترس گئے اگر اکھنڈ بھارت بن جاتا ہے تو مسلمان اپنے اعزہ اقرباء سے مل سکیں گے،ان کی مجموعی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ان کی قوت اور طاقت میں اضافہ ہوگا۔کیا سنگھ کے لوگ اتنے سادہ لوح ہیں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اکھنڈ بھارت سے مسلمانوں کا فائدہ ہے؟جو بھارت کے مسلمانوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتے وہ پاکستان ،بنگلہ دیش اور افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ رہ سکیں گے۔اسی افغانستان کے ساتھ جہاں کے طالبان کے نام سے دنیا گھبراتی ہے ۔
میں بھاگوت جی کے بیان کے پہلے حصے کا نہ صرف خیر مقدم کرتا ہوں بلکہ اکھنڈ بھارت کے لیے میری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں ۔وہ اس کا فارمولا جلد از جلد بتائیں تاکہ اس فارمولے پر عمل کیا جاسکے۔آج تک سنگھ کے کسی دانشور نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اکھنڈ بھارت کس طرح بنائے گا؟نفرت کی زبان بولنے والے محبت سے تو یہ کام ہر گز نہیں کرسکتے ۔ان کے پاس صرف اس کا ایک ہی راستا ہے کہ وہ فوج کشی کے ذریعے ان ممالک پر قبضہ کرلیں اور وہاں کی رعایا کو محکوم بنالیں۔جو فوج چین سے اپنا حصہ نہیں لے سکی ،اپنے جوانوں کی لاشیں لینے میں بھی اسے مشکل پیش آتی ہے ،جو فوج مقبوضہ کشمیر میں ایک انچ داخل نہیں ہوسکی ،کیاوہ فوج آزاد ممالک پر قابو پاسکتی ہے؟اور کیا ایسی فوج کشی ممکن ہے؟بھاگوت جی کو یاد رکھنا چاہیے کہ نفرت کے بول توڑنے کا کام کرتے ہیں جوڑنے کا کام نہیں ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ یوروپی یونین کی طرح برصغیر یا ماضی کے ہندوستان کا کوئی وفاق بنے تو محبت کی زبان بولنا سیکھیے۔پہلے اپنے گھر کے لوگوں کے دل جیتیے ،اس کے بعد باہر کی طرف نظر اٹھائیے۔گھر کے افراد سے آپ کو نفرت ہے،ان کی زبان سے نفرت ہے ،ان کی اذان،نماز اور حجاب سے نفرت ہے ،ان کی داڑھی ٹوپی آپ کی آنکھوں کا کانٹا ہے تو کس طرح آپ دوسروں پر فتح حاصل کرسکتے ہیں؟
اکھنڈ بھارت کا خواب بھی اگر شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے تو صرف مسلمانوں کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے ۔اگر ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کو یہ ذمہ دے تو پھر باقی مسلم ممالک کے اشتراک سے کوئی وفاق بن سکتا ہے۔موجودہ حالات تو بھارت کے مزید کھنڈ بنائے جانے کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔مذہبی جلوس میں جس طرح اشتعا ل انگیزی کی جارہی ہے،مساجد پر بھگوا جھنڈا لہرایا جارہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب بھارت میں قومی کشمکش قومی جنگ میں بدل جائے گی۔دونوں قومیں ایک دوسرے کے خلاف ہر میدان میں آمنے سامنے ہوں گی۔ابھی مسلمانوں کی جانب سے جس طرح کا ردعمل سامنے آرہا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے مسلمان لقمۂ تر نہیں۔ابھی رد عمل کا یہ سلسلہ غیر منظم بھی ہے اور دفاعی بھی ہے۔اگر خدا نہ خواستہ یہ منظم ہوکر جارحانہ رخ اختیار کرگیا تو ہم اپنے وجود کو تلاش کرتے رہ جائیں گے۔
میری گزارش ہے سنگھ کے سر سنگھ چالک بھاگوت جی سے کہ وہ اکھنڈ بھارت کی افیون اپنے بھکتوں کو نہ پلائیں بلکہ ان کو حقیقت سے روبرو کریں۔اس ملک کے اصل مسائل سے آنکھیں نہ موندیں ورنہ اتنی گہری کھائی میں جاکر گریں گے کی نکلنا مشکل ہوجائے گا۔بھارت کی سرزمین ہم سب کی ہے ،سبھی کا خون اس کی مٹی میں شامل ہے ،سیکولرجمہوریت ہی یہاں کے لیے مناسب طرز زندگی ہے۔اسے بدلنے کا ارادہ ترک کردیں۔سب کو ملک کی ترقی کے لیے کام کرنے دیں تا کہ ملک ہمہ جہت ترقی کرے۔ہندو راشٹر بنانے کے بجائے ہندو سماج کو ان اخلاقی صفات سے آراستہ کریں جو ہندو دھرم کی پہچان اور شری رام کا آدرش ہیں۔اگر بھارت کے لوگ امن و سکون سے رہتے ہیں،اہل ملک کو عدل و انصاف میسر ہے۔باشندگان ملک ایک دوسرے کا دل جیت لیتے ہیں تو یہ اکھنڈ بھارت سے بھی بڑی کامیابی ہوگی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)