رام پور:
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کا آغاز ہوتے ہوتے ہندوستان میںاس عظیم اسلامی تحریک کی ابتدا ہوئی جس کو بر صغیر ہند و پاک میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک منظم اور فعال تحریک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جس نے عالم اسلام کی سیاست و معاشرت پر دور رس اثرات مرتب کئے ہیں اور صالح نوجوانوں کی ایسی نسل تیار کردی جو غیر اسلامی نظریات، فحاشی اور مغربی اثرات کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر ان کی مزاحمت کررہے ہیں۔ یہ اسلامی تحریک کم و بیش ہر قابل لحاظ اکثریت رکھنے والے ملک میں کسی نہ کسی نام سے سرگرم ہے۔ بر صغیر ہندو پاک میں تحریک کی عملی سرگرمیوں کا نام جماعت اسلامی ہے۔ یہ بات ایک سوال کے جواب میں مقتدر عالم دین، متعدد کتابوں کے مصنف، نو منتخب امیر جماعت اسلامی ہند رام پور نے کہی۔ 31 دسمبر 1959 میں اتر پردیش کے ضلع مئوکے قصبہ اجری میں پیدا ہونے والے اور جامعۃ الصالحات رام پور میں تدریسی فرائض انجام دے رہے شیخ الحدیث مولانا عبد الخالق ندوی نے اس سوال کہ کیا جماعت اسلامی ایک مقام پر آکر ٹھہر گئی ہے اور اس پر فکری جمود طاری ہے، کے جواب میں کہا کہ ہر تحریک کی کچھ نمایاں خصوصیات اور نمایاں کمزوریاں ہوتی ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھنے والوں کی نظر سے خامیاں چھپی رہتی ہیں۔ جبکہ کمزوریاں ڈھونڈنے والوں کو خوبیاں دکھائی نہیں دیتیں بلکہ وہ خوبیوں کو بھی خرابیوں کے لبادہ میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں۔چنانچہ اس افراط و تفریط میں تحریک گم ہوجاتی ہے اور عصبیتیں پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہو کر حشر سامانیاںڈھاتی ہیں کہ تاریخ خون کے آنسو روتی ہے اور عصبیت کی تلوار سے سربریدہ لاشیں تڑپتی نظر آتی ہیں۔ یہ عصبیتیں اتنی طاقت ور ہوتی ہیں کہ اپنے حصہ کے پانی پر قبضہ کے لئے صفیں آراستہ ہوجاتی ہیں۔ یہ تکلیف دہ سلسلہ صدیوں پرانا ہے اور نہ جانے جونک زدہ روایت کب تک لہو پیتی رہے گی۔ مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جماعت اسلامی اس مرض سے کوسوں دور ہے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ دار السلام مئو اور 1972 تا 1980 کے درمیان دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے عالمیت اور فضیلت کی اسناد حاصل کرنے والے مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ جماعت اسلامی نے ہندوستان کی سخت زمین سے وہ تمام کانٹے چننے کی کوشش کی ہے جو امت مسلمہ کے تلووں کو زخمی کررہے ہیں۔ فرقہ واریت اور مسلکی عصیبت کی دیواریں ڈھا کر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کا تصور پیش کیا۔ بتان رنگ و خوںکو توڑ کر ملت میں گم ہونے کی تعلیم نے اسے معاشرہ میں باوقار مقام عطا کیا۔ جہاں تک اس کی انفرادیت کا سوال ہے تو وہ کئی لحاظ سے ہے مثلاً جماعت اسلامی نے اسلام کا تعارف بحیثیت ایک مکمل نظام زندگی نہایت مدلل اور دلنشیں انداز میں کرایا اور ذہنوں سے یہ بات نکالی کہ دین اور دنیا زندگی کے دو الگ الگ دائرے ہیں۔ اس نے دہریت و الحاد کے دور میں اسلام کے تحریکی نظام کا چراغ روشن کیا اور ایک عظیم الشان لٹریچر فراہم کیا۔ اس قافلہ نے اپنی ناتواں بے سروسامانی اور طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرتے ہوئے قرآن مجید کا ترجمہ ہندوستان کی تقریباً ہر زبان میں شائع کرایا تاکہ برادران وطن بھی اپنے رب کے پیغام سے آشنا ہوسکیں۔ نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تعلیم و تربیت کے لئے جماعت اسلامی نے جو درسیات تیار کرائیں، وہ اس کا ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ دوسرے جماعت اسلامی نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ دعوت دین ایک فریضہ ہے جسے امت مسلمہ کے ہر فرد کو پورا کرنا چاہئے۔ جو لوگ صرف انفرادی عبادتوں اور نیکیوں پر مطمئن بیٹھے رہیں گے اور شہادت حق کا فریضہ ادا نہیں کریںگے وہ سخت کوتاہی کے مجرم ہوں گے اور ان سے باز پرس ہوگی۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ یونیورسٹی سے 1985 میں عربی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد مکۃ المکرمہ میں دو سالہ دعوتی کورس کے بعد کویت میں وزارۃ الاوقاف میں مشیر کا فریضہ انجام دینے کے بعد 17 جولائی 1992 سےجامعۃ الصالحات میں تدریسی فرائض انجام دینے والے مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ جماعت اسلامی نے دین و سیاست کی علیحدگی کے تصور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ متعدد مقبول عام کتابوں کے مصنف و مترجم، سرکردہ علماء کرام کی فہرست میں ممتاز حیثیت کے حامل اور مختلف انجمنوں کے سربراہ اور تیسری مرتبہ جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری سنبھالنے والے مولانا عبد الخالق ندوی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں جو کام ہم نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے یعنی اخلاقی اصولوں پر دنیا کی اصلاح کرنااور دنیا کے نظم کو درست کرنا اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اخلاقی حیثیت سے ہم اپنے آپ کو دنیا کا صالح ترین گروہ ثابت کرکے دکھائیں۔ جس طرح ہمیں دنیا کے بگاڑ پر تنقید کا حق ہے اسی طرح دنیا کو یہ دیکھنے کا حق ہے کہ ہم انفرادی و اجتماعی طور پر کیسے رہتے ہیں اور کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔یاد رہے کہ مولانا عبد الخالق ندوی میقات مارچ 2023 تک اپنےمنصب پر فائز رہیں گے۔