تحریر: شعیب رضا فاطمی
ایک ایسے دور میں جب صحافت اپنا وجود بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہے کمال خان کا چلے جانا کسی المیہ سے کم نہیں۔موجودہ ہندی صحافت کی آبرو تھے کمال خان، زبان و بیان کے آسمان کا نام کمال خان اور صرف کمال خان تھا۔ صحافت کی قدروں کو کمال خان نے سنبھال کر رکھا تھا اور اس کی خمیر سے انہوں نے نیا صحافتی اسلوب خلق کیا تھا۔ کمال خان کی رپورٹ کا کینوس اتنا بڑا ہوتا تھا کہ اس میں بیک وقت تاریخ، تہذیب، روایت، وراثت، صداقت ساتھ ہی نفاست اور زبان و بیان کی حلاوت گھل مل جاتی تھی۔
جن لوگوں نے بھی بابری مسجد تحریک کے ہر دور کو دیکھا ہے۔ اجودھیا کو جانتے ہیں، رامائن کی ایک ایک چوپائی کو سمجھتے ہیں رامائن کے کرداروں کو بشمول اجودھیا کی تاریخی اور تہذیبی وراثت کو جانتے اور سمجھتے ہیں انہیں اندازہ ہے کہ کمال خان کی اس دور کی اجودھیا کی رپورٹنگ کا معیار کیا تھا۔ کمال خان نے اپنی رپورٹنگ کی زبان کو نہ صرف دلچسپی کے حدود سے باہر نہیں نکلنے دیتے تھے بلکہ محاوروں کی آمیزش سے اختصار کی خوبی کا آئینہ بھی بنا دیتے تھے۔
ان کی رپورٹ کا ایک ایک جملہ ان کی علمیت کو ظاہر کرتا تھا اور موضوع کے تمام ابعاد کو روشن کردیا کرتا تھا۔ اس وقت جب صحافت پر ایک پیغمبرانہ دور پوری طرح حاوی ہوچکا ہے ۔کمال خان کا چلے جانا ایک نہایت المناک حادثہ ہے اور پوری ہندی صحافتی دنیا اس خلا کو نہ جانے کب تک محسوس کرتی رہےگی۔
این ڈی ٹی وی کی پوری ٹیم یقیناً اس نابغہ صحافی کو ایک عرصہ تک نہیں بھول پائے گی۔ رویش کمار کا جو برانڈ آج ایک لامحدود حلقہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے اس میں کمال خان کی کمال کی رپورٹنگ کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا۔ رویش کمار اس کمی کو محسوس کریں گے اور خود کو کسی حد تک کمزور بھی محسوس کریں گے۔
کمال خان جیسے نابغہ افراد تو اب پیدا ہونا ہی بند ہو چکے ہیں سو ان پر ماتم کرنے کے لئے تو پوری تاریخ بھی کم ہے۔ وہ اپنے حصہ کا چراغ جلا کر چلے گئے اب ہمارا کام ہے کہ اس چراغ کی روشنی کو مزید چراغوں کو جلانے کا کام کریں یا اس سے لٹی پٹی صحافتی جھونپڑی کو آگ لگا دیں۔
الوداع کمال خان، اللہ آپ کو آپ کی حق گوئی کے بدلے جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا۔