تحریر: راجیش بادل
راجیہ سبھا ٹی وی اور لوک سبھا ٹی وی اب نہیں ہے۔ 15 ستمبر کی شام سے ان کی نشریات بند ہو گئیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دونوں چینلز کو ضم کر دیا گیا ہے اور ایک نیا سنسد ٹی وی چینل تشکیل پا رہا ہے۔ نئے چینل کا خیر مقدم ہے۔ تبدیلی زندگی کا قانون ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا دونوں چینلز کاانضمام ہو سکتا ہے ؟ گھر کی دکان ہے تو کر لیجئے، ورنہ قانوناً تو ممکن نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دو چینل بند ہو رہے ہیں اور ایک نیا چینل شروع ہو نے جا رہاہے۔ ان تین چینلوں کے تین الگ الگ لائنس ہیں۔ زمرے بھی الگ الگ ہیں۔ کوئی غیر سرکاری کمپنی اپنے دو چینلوں کا انضمام کرنا چاہتی ہے تو وزارت اطلاوعات ونشریات کے قانون سے روک دیتے ۔ ایسا کوئی التزام ہی نہیں ہے۔ قانون میں ترمیم نہیں کی گئی ہے ۔ پارلیمنٹ میں انضمام قوانین کی منظوری کے بغیر ہو سکتا ہے؟ عجیب بات ہے۔ لیکن جب تمام آئینی اداروں پر سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں تو پھر پارلیمانی چینل کس کھیت کی مولی ہے؟
بات صرف انضمام کی نہیں ہے ۔ اس سے بڑی ہے ۔ دنیا کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی جمہوریت کے پارلیمنٹ کے دونوں کامیاب چینلوں کو اچانک بند کرنا اور نیا چینل شروع کرنے کی کوئی قابل قبول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔ تقریباً پندرہ برس پہلے لوک سبھا ٹی وی اور دس سال پہلے راجیہ سبھا ٹی وی شروع کئے گئے تھے۔ لوک سبھا ٹی وی کے پروگرام پروڈکشن کا اپنا ایک کردار تھا۔ وہ ذمہ داری کے ساتھ پارلیمانی طریقہ کار اور خدشات کونشر کررہا تھا ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس نے چینلز کیبھیڑمیں اپنی الگ شناخت بنائی تھی۔
گورنرز کے آئینی رول پر ایک سیریل بنایا۔ معروف فلم ڈائریکٹر شیام بینیگل سے آئین ہند کی کہانی اسکرین پر دکھائی گئی۔ یہ وہ کام ہے جن پر آزادی کے بعد کام نہیں کیا گیاتھا۔ ایسے بے شمار پروگرام ہیں جو آج بھی کروڑوں لوگوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔درد یہ بھی ہے کہ ان چینلز میں کام کرنے والے صحافیوں کوبھی سیاسی خیمہ میں بانٹ دیاگیا۔ اس ناقص اور مسخ شدہ سوچ نے صحافت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ہم ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ، لیکن جب سمندر پار ان کی شہرت ہو اور کروڑ وں کی تعداد میں ناظرین سوشل میڈیا کے نئے اوتار وںپر انہیں دیکھ رہے ہوں ، توان کا قتل کوئی جائز نہیں ٹھہرائے گا ۔ بہرحال سنسد ٹی وی کی پاری کاانتظایر ہے ۔ اسے نیک خواہشات !
(بشکریہ : ستیہ ہندی)