مانیسر ؍ چنڈی گڑھ :(ایجنسی)
ہریانہ کے مانیسر میں ‘’سمست ہندو سماج‘ کے بینر تلے پنچایت کا انعقاد کیا گیا۔ اس پنچایت کے پوسٹر میں ’جہادی طاقتوں‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بات کہی گئی تھی۔ پنچایت میں مقررین نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی کال دی ۔
اس پنچایت میں تقریباً 200 لوگوں نے حصہ لیا، پنچایت میں شامل لوگ مانیسر اور اس کے آس پاس کے گاؤں کے رہنے والے تھے۔
وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے لیڈران موجود تھے
حالانکہ پنچایت میں شامل لوگ ’سمست ہندو سماج‘ کے بینر تلے جمع ہوئے تھے، لیکن وہاں موجود لوگوں میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکن اور لیڈر شامل تھے۔ بجرنگ دل کے مونو مانیسر اور گئو رکشا دل کے دھرمیندر مانیسر اور وی ایچ پی مانیسر کے جنرل سکریٹری دیویندر سنگھ بھی وہاں موجود تھے۔
جج کے خلاف مواخذے کا مطالبہ
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نوپور شرما کو لوگوں کے جذبات بھڑکانے پر پھٹکار لگائی تھی اور ملک میں پیدا ہونے والے فرقہ وارانہ ماحول کے لیے انہیں ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس معاملے پر جسٹس سوریہ کانت کے مواخذے کی بات بھی پنچایت میں کہی گئی۔
فون کے بجائے ہتھیار رکھنے کی اپیل
مقررین نے پنچایت میں موجود تمام لوگوں سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے فون کے بجائے ہتھیار رکھیں۔ کہا گیا کہ فون آپ کی حفاظت نہیں کرے گا جبکہ ہتھیار آپ کو ’جہادیوں‘ سے محفوظ رکھے گا۔
وی ایچ پی مانیسرکے جنرل سکریٹری دیویندر سنگھ جنونیت سے ملک کو برباد کیا جا رہا ہے اور جو لوگ اپنی شناخت چھپاکر یہاںرہ رہے ہیں ان کی شناخت کرنے کے لئے میمورنڈم انتظامیہ کو دے رہے ہیں ۔ ایک ہفتہ کا وقست دیا جاتا ہے انتظامیہ کو ان کی جانچ کریں اور غیر قانونی لوگوں کو باہر کرے اگر انتظامیہ ایسا نہیں کرتا ہے تو آگے ہندو سماج پھر کارروائی کرے گا۔
انتظامیہ کو میمورنڈم پیش کیا گیا
پنچایت میں شامل تمام لوگوں کے دستخط کرنے کے لیے درخواست دی گئی اور اسے ڈیوٹی مجسٹریٹ سجن سنگھ کے حوالے کیا گیا اور کہا گیا کہ اگر انتظامیہ نے مناسب کارروائی نہ کی تو ایک ہفتے بعد پنچایت دوبارہ بلائی جائے گی۔
کمیٹی بنائی جائے گی
پنچایت میں گاؤں کی سطح پر ایک کمیٹی بنانے کو کہا گیا، جو اس بات کی نگرانی کرے گی کہ آیا کوئی مسلمان نام بدل کر کاروبار کر رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھنے کو کہا گیا کہ مسلم طبقہ کے دکانداروں سے سامان یا کوئی سہولت نہ لی جائے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اس طرح کی پنچایت کا انعقاد کیا گیا ہو جہاں کسی خاص برادری کا بائیکاٹ کرنے کی بات کہی گئی ہو۔ اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر ایسا کیا جا چکا ہے۔ دہلی کے بروری، ہریانہ کے نوح، اتراکھنڈ کے روڑکی اور پریاگ راج میں بھی مہاپنچایتیں منعقد کی گئی ہیں جس میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی کال دی گئی۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ پروگرام پولیس انتظامیہ کی موجودگی میں کیا گیا تھا اور مقررین کی تقاریر کے دوران پولیس وہاں موجود تھی۔