نئی دہلی:(ایجنسی)
سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کے انتخابات کے دوران مبینہ طورپر ناقابل عمل وعدے کرنے کے معاملے میں مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن کومنگل کے روز نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا۔
چیف جسٹس این وی رمن کی سربراہی والی بنچ نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور وکیل اشونی کمار اپادھیائے کی ایک مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل وکاس سنگھ سے پوچھا کہ درخواست میں صرف دو سیاسی جماعتوں کا ہی کیوں ذکر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے صرف پنجاب کا ذکر کرنے پر بھی سوالات کئے۔
مسٹر سنگھ نے بنچ کو بتایا کہ انتخابات کے وقت تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے پرکشش وعدے کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ناقابل عمل وعدوں کا بوجھ آخر کارعوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ انہوں نے اس عرضی کو اہم بتاتے ہوئے مرکز اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرنے اور جلد سماعت کرنے کی گزارش کی جسے سپریم کورٹ نے قبول کرلیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی والی جسٹس اےایس بوپنا اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ نے مرکز اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کے ساتھ ہی کہا کہ وہ اس معاملے کی سماعت چار ہفتے بعد کرے گی۔
مسٹر اپادھیائے نے اسمبلی انتخابات سے پہلے عوامی پرکشش وعدوں کو منصفانہ انتخابات کی جڑوں کو ہلانے والا قراردیتے ہوئے اس کے خلاف ہفتہ کو ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی ۔ انہوں نے اپنی درخواست میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے تناظر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پاپولسٹ وعدوں کا ذکرکرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ عوامی فنڈز سے مفت تحائف کے غیر معقول وعدوں نے ووٹروں کو غیر ضروری طور پر متاثر کیا ہے، لہٰذا سپریم کورٹ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دے کہ وہ متعلقہ جماعتوں کے انتخابی نشانات ضبط کرے اوران کا رجسٹریشن منسوخ کردے۔
عوامی وعدوں نے منصفانہ انتخابات کی جڑیں ہلا دیں
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے وقت ’تحائف‘ کے اعلان سے ووٹرز غیر ضروری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ اس سے انتخابی عمل کی درستگی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے ’عوامی وعدوں ‘ نے منصفانہ انتخابات کی جڑیں ہلا دی ہیں۔
آئین کی خلاف ورزی
درخواست میں سیاسی جماعتوں کے ایسے فیصلوں کو آئین کے آرٹیکل 14، 162، 266 (3) اور 282 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ درخواست میں الیکشن کمیشن کو ان سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات کی رجسٹریشن کو ضبط اور منسوخ کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی گئی ہے جنہوں نے عوام کے پیسے سے غیر معقول ’مفت ‘تحفے‘ تقسیم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سیاسی جماعتیں من مانی یا غیر معقول طور پر غلط فائدے کے لیے اور ووٹروں کو اپنے حق میں لینے کے لیے ’تحفے‘ کا وعدہ کرتی ہیں، جو کہ رشوت ستانی اور غیر ضروری اثر و رسوخ کے مترادف ہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابات کے موقع پر دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے وعدوں پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہئے کیونکہ اس طرح کے مقبول وعدوں کا استعمال ووٹروں کو لالچ دے کر ناجائز سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
’آپ‘ کی مثال ، پنجاب میں ہر ماہ ہزاروں کروڑ کی ضرورت ہوگی
مثال دیتے ہوئے عرضی میں کہا گیا ہے کہ اگر عام آدمی پارٹی (اے اے پی) پنجاب میں اقتدار میں آتی ہے تو اسے اپنے سیاسی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے ہر ماہ 12,000 کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔ وہیں اگر شرومنی اکالی دل اقتدار میں آتا ہے تو ماہانہ 25,000 کروڑ روپے اور کانگریس کے اقتدار میں آنے پر 30,000 کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی، جبکہ ریاست کی جی ایس ٹی کی وصولی صرف 1,400 کروڑ روپے ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اصل میں قرضہ واپس کرنے کے بعد پنجاب حکومت تنخواہ اور پنشن بھی نہیں دے پا رہی ہے تو تحفہ کیسے دے گی؟ کڑوا سچ یہ ہے کہ پنجاب کا قرضہ ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔ ریاست کا بقایا قرض بڑھ کر 77,000 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔ موجودہ مالی سال میں ہی 30,000 کروڑ روپے جمع کیے جا رہے ہیں۔
وہ دن دور نہیں جب پارٹیاں وعدہ کریں گی کہ ‘ہم آپ کو کھانا پکا کر کھلائیں گے
عرضی گزار اپادھیائے نے کہا کہ وہ وقت دور نہیں جب ایک سیاسی پارٹی کہے گی کہ ‘’ہم آپ کے لیے آپ کی رہائش گاہ پر کھانا بنائیں گے‘ اور دوسری کہے گی کہ ‘ہم صرف کھانا نہیں بنائیں گے، بلکہ آپ کو کھلائیں گے۔‘ تمام پارٹیاں عوامی وعدوں کے ذریعے دوسری پارٹیوں کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔