ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سمیناروں میں صرف مدّاحی نہیں کی جاتی ، بلکہ مثبت تنقید بھی کی جاتی ہے اور اسے پسند کیا جاتا ہے _ مولانا سید جلال الدین عمری پر سمینار میں مقالہ نگاروں نے عموماً ان کی خدمات کو سراہا اور ان کی تحسین کی ، جب کہ بعض مقالہ نگاروں نے ان کی تصنیفات میں کچھ کمیوں کی نشان دہی کی _
اصحابِ مقالات کے علاوہ اجلاسوں کے صدور نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ، جن میں انھوں نے مولانا کی خدمات پر عمومی تبصرے کیے _ بعض حضرات نے صراحت سے کہا کہ مولانا عمری نے بہت لکھا ہے ، لیکن انھوں نے کوئی نئی فکر نہیں پیش کی _ اس پر سامعین میں سے بعض نوجوان یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ معاصرت بھی عجیب چیز ہے ، آسانی سے خوبیوں کا اعتراف نہیں کرنے دیتی _ میں یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتا ، البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ ان حضرات کو اپنی شدید مصروفیات کی بنا پر مولانا کی کتابوں کا ٹھہر کر اور غور سے مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا _
مولانا کی متعدد کتابوں میں عصری مسائل سے بحث کی گئی ہے _ ان میں ان کی تحقیقی شان نمایاں ہوتی ہے اور ان کی ایسی آرا سامنے آتی ہیں جو فقہائے متقدّمین کے یہاں نہیں ملتیں _ مثال کے طور پر چند آرا پیش کی جاتی ہیں :* غیر مسلموں کو سلام کیا جاسکتا ہے _* عورت ، معاشی تنگی نہ ہو تب بھی ، معاشی آسودگی ، خدمت خلق یا خود کو مصروف رکھنے کے لیے ملازمت کرسکتی ہے _* عورت کی صحت متاثر ہو یا چھوٹے بچوں کی پرورش میں دشواری ہو تو منع حمل کی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں _* کفو کو ذات برادری سے جوڑنا درست نہیں ، دین داری کو ترجیح دی جانی چاہیے _* دار الاسلام اور دار الکفر کی اصطلاحات کی اب معنویت باقی نہیں رہ گئی ہے _
* علاج معالجہ میں وقتِ ضرورت مُحرّمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے _وغیرہ ایک مقالہ نگار نے فرمایا کہ مولانا عمری نے معاشیات کے موضوع پر کچھ نہیں لکھا ہے _ یہ بات شاید انھوں نے اس لیے کہی کہ معاشیات پر مولانا کے مضامین ان کی نظر سے نہیں گزرے _
یہ مضامین بہ عنوان : اسلام کا نظریہ مال ، ذرائع دولت ، دولت کا استعمال ، سامان تعیش اور اسلام ماہ نامہ زندگی رام پور میں شائع ہوئے ہیں _ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا جاسکتا ہے _ اس کے علاوہ بیوی کا نفقہ ، مطلقہ کا نفقہ ، وراثت اور دیگر موضوعات پر ، جو اسلام کے معاشی نظام سے متعلق ہیں ، مولانا کے مضامین ہیں _