رانچی :(ایجنسی)
جھارکھنڈ کے دارالحکومت کا مرکزی بازار کا علاقہ، 10 جون بروز جمعہ نماز جمعہ کے بعد مرکزی سڑک تقریباً 4 گھنٹے تک جاری رہی – تشدد، آتش زنی، ہنگامہ آرائی.. اور اس پر قابو پانے کے لیے پولیس کو گولی چلانا پڑی۔ فسادات کے دوران پاس کے ہی مسلم اکثریتی علاقے کے رہنے والے 15 سال کا مدثر اور 21 سال کا ساحل بھی وہاں موجود تھا۔ گولی لگنے کی وجہ سےان دونوں کی موت ہو گئی ہے۔ حالانکہ اب تک یہ صاف نہیں ہےکہ یہ موت پولیس کی گولی لگنے سے ہوئی ہے یا پھر کسی دوسری بندوق سے نکلی گولی سے۔ مدثر اور ساحل دونوں ہی بہت غریب گھروں سے آتے تھے، ساحل ایک آٹو ڈرائیور کا بیٹا تھا، جب کہ مدثر کے والد سبزی -پھل کی ٹھیلا چلاتے تھے۔
مدثر میٹرک کا نتیجہ دیکھے بغیر مر گیا
رانچی کا ہندپاڑی محلہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں 10 جون بروز جمعہ تشدد، ہنگامہ آرائی اور آتش زنی کی وارداتیں ہوئیں۔ تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم مدثر کے گھر پہنچے۔ ویسے گھر کہنا درست نہیں ہوگا، بچ بچاتے نالی کے کنارے سے ہوتے ہوئے ٹین کے کمزور سے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو سامنےایک چھوٹا سا کمرہ۔ مجمع لگا ہواہے۔ آنگن میں مرغیاں ناچ رہی ہیں اور سناٹے کو توڑتی مرغی کی بانگ ۔ لال رنگ کی ٹینٹ والی کرسیاں پر کچھ مرد اور ساتھ میں کچھ بچے بیٹے ہوئے ہیں ۔ یہ بچے مدثر کے ساتھ پڑھنے والے دوست ہیں ۔
ان میں سے ایک بولا ’’ابے ہم مربو نا بے تو پورا رانچی جانے…‘‘ (جب میں مروں گا تو پورا رانچی شہر جانے گا) مدثر ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا۔ دوست بتاتے ہیں کہ مدثر پڑھائی میں ہوشیار تھا، کمپیوٹر کی کلاسز بھی الگ سے کرتا تھا۔ ابا پھل سبزیوں کا ٹھیلا لگاتے تھے، اس میں بھی مدد کرتا تھا۔ دوست بتاتے ہیں کہ ایک مدثر مر گیاہے لیکن اب اس محلے کا ہر لڑکا مدثر بنے گا اور ضرورت پڑنے پر شہادت بھی دے گا۔ جیسے ہی ہم نے اپنا کیمرہ نکالا تو مدثر کے ہر دوست اپنے چہرے چھپانے شروع کر دیا۔ کہا- ہماری تصویر مت کھینچو، 12 ہزار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ پولیس رات کو یہاں چکر لگاتی ہے۔ ہمارا چہرہ آئے گا تو ہمیں اٹھا لیا جائے گا۔
متوفی مدثر کی والدہ نکہت پروین اس قدر روئیں کہ اب آنسو خشک ہوچکے ہیں، آنکھ ٹھیک سے نہیں کھل رہی اور بار بار بستر پر لڑھک جارہی ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ مدثر نکہت کے بطن سے پیدا ہونے والا واحد لال تھا۔ جب ہم ان سے بات کرنے پہنچے تو گھر والوں نے تنبیہ کی کہ زیادہ دیر بات مت کرو، ماں بار بار بیہوش ہو رہی ہے۔ دو دن سے کھانا اور پانی کی سدھ تک نہیں ہے۔‘
لال رنگ کی شلوار میں ملبوس نکےت ایک چارپائی پر لیٹی ہوئی تھیں اور کچھ خواتین انہیں گھیر ے ہوئی تھیں۔ سر پر کوئی ٹھوس چھت نہیں تھی، کمرہ پلاسٹک کی چادر سے ڈھکا ہوا تھا جو تیز ہوا کے جھونکے سے بار بار اڑا رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر وہ خود اعتمادی سے اٹھیں اور پاس بیٹھی خاتون کے کندھے پر سر رکھ دیا۔
‘#میرا بابو غیر مسلح تھا پھراسے گولی کیوں ماری گئی
مدثر کی والدہ نکہت نے روتے ہوئے کہا- ‘میرے بیٹے کی موت کی ذمہ دار حکومت ہے۔ سڑک پر جو کچھ ہو رہا تھا وہ سب کے سامنے ہے، سب جانتے ہیں۔ جس کی وجہ سے میرا بیٹا مر گیا ہے اسے بھی مرنا چاہیے۔ بیٹے نے حال ہی میں میٹرک کا امتحان دیا تھا، دو دن بعد اس کا رزلٹ آنے والا تھا۔ وہ کمپیوٹر کی کلاس لیتا تھا۔ پوری بستی میں بچے اور بوڑھے اس سے پیار کرتے تھے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا بچہ سب کو کتنا پیارا ہوگا۔
’مجھے میرے بیٹے کی موت کا غصہ نہیں ہے ۔ وہ شہید ہو گیا ہے۔ ہمارے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دل میں بستے ہیں اور جو ہمارے دل میں بستے ہیں ہم سینے میں گولی کھانے کو تیار ہیں۔ اسے موت نہیں، شہادت کہتے ہیں۔ شہید ہوا بچہ اچھا ہوتا ہے ۔ میرا بچہ گنہگار نہیں تھا۔ کبھی اس کی کسی سے جھگڑا ، لڑائی نہیں ہوئی۔ تب اس 15 سال کے بچے کو گولی کیوں مار دی گئی۔ اگر میرے بابو نے اینٹ – پتھر ،تلوار ،لاٹھی چلائی ہوتی، تب بھی میںمانتی وہ غلط تھا اور گولی مار دی گئی، لیکن وہ غیر مسلح تھا۔‘
‘حادثہ 10 جون کو ہوا،اب تک ایف آئی آر کی کاپی بھی نہیں ملی
گھر پر معلوم ہوا کہ مدثر کے والد اور بڑے والد تھانے میں ایف آئی آر کے اندراج کے لیے در-در بھٹک رہے ہیں۔ ڈیلی مارکیٹ پولیس تھانے کے باہر دونوں 12 جون کی صبح سے اپنے بیٹے کی موت کی ایف آئی آر لکھوانے کی درخواست کر رہے تھے، لیکن ہر کوئی یہ کہہ کر ٹال رہا تھا کہ تھوڑی دیر بعد، 1-2 گھنٹے بعد آنا۔
متوفی مدثر کے بڑے چچا محمد شاہد کا کہنا ہے کہ ’15 سالہ مدثر اپنے والد کی پھلوں اور سبزیوں کا ٹھیلا لگانے میں مدد کرتا تھا۔ جس دن تشدد ہوا، وہ اپنے والد کے ساتھ ڈیلی مارکیٹ کی سڑک پر پھلوں کی گاڑی کے ساتھ تھا۔ بڑا مجمع آیا تو مدثر بھی ہجوم میں شامل ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں مندر اور پولیس کی طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ مدثر کو گولی لگی اور وہ گر گئے۔ ہمارے بچے کو انصاف ملنا چاہیے۔ جس نے بھی گولی ماری اسے سزا ملنی چاہیے۔
ساحل چار بہن بھائیوں کا سہارا تھا
21 سالہ ساحل کا گھر سنکٹ موچن مندر سے صرف 900 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ مدثر کی طرح ساحل بھی غریب طبقے سے تھا۔ ان کے والد آٹو چلاتے ہیں تو میٹرک تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے نیو مارکیٹ میں قریبی موبائل شاپ میں نوکری شروع کر دی۔ اس طرح 10-12 ہزار روپے کی آمدنی ہوتی۔ 4 بہن بھائیوں میں، ساحل گھر کا سب سے بڑا کمانے والا تھا۔ امّی اور ابو گھر میں بیمار ہیں۔
ماں کے پیٹ کا ایک روز قبل آپریشن ہوا تھا اور اگلے روز بیٹے کی موت کی خبر سننے کو ملی۔ مدثر کی ماں کی طرح ساحل کی ماں بھی اپنے بیٹے کو شہید مانتی ہیں۔ جس دن ہم ساحل کے گھر پہنچے، اس کا جنازہ اٹھایا جانا تھا۔ گھر اور محلے میں ہر جگہ لوگ ناراض تھے، بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ موقع کو سمجھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم دوسرے دن آئیں گے۔