نئی دہلی:
ملک کے معروف نوجوان عالم دین،آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اوردارالعلوم دیوبندکے سابق میڈیاترجمان مفتی اعجازارشدقاسمی کادہلی میں انتقال ہوگیا۔ان کی عمر46سال تھی۔گذشتہ کئی دنوں سے طبیعت خراب چل رہی تھی کل انہیں فریدآبادکے ایشین اسپتال میں داخل کیاگیاتھا،حالت نازک ہونے پرفریدآبادکے ہی پون ہسپتال میں منتقل کیاگیاجہاں آج دوپہرکے تقریباڈھائی بجے اپنی آخری سانس لی۔مفتی اعجازارشدقاسمی کاآبائی وطن بہارکے مدھوبنی ضلع کی زرخیزبستی چندرسین پورتھا،ابتدائی تعلیم انہوں نے مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں پتھرادربھنگہ سے حاصل کی اور پھردارالعلوم میں داخلہ لیاجہاں سے انہوں نے فضیلت کی سندحاصل کی اور پھرافتاء بھی دارالعلوم دیوبندسے ہی کیا۔افتاء کے بعدایک سال انہوں نیدارالعلوم دیوبندکے شعبہ صحافت شیخ الہنداکیڈمی میں رہ کرصحافت کی تربیت حاصل کی۔اس کے بعددارالعلوم دیوبندکے رکن شوریٰ مولانابدرالدین اجمل قاسمی صاحب کی ایماء پرتقریبا ایک سال ہندوستان کے مشہورزمانہ ہفت روزہ نئی دنیامیں عملی صحافت کی تربیت حاصل کی۔اس کے بعدسن ۱۰۰۲ میں باضابطہ دارالعلوم کے شعبہ انٹرنیٹ میں ویب ایڈیٹرکی حیثیت سے آپ کاتقررہوا۔آپ نے دارالعلوم دیوبندکیمیڈیاترجمان کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں،آپ دارالعلوم دیوبندکے طلبہ کے لئے صحافت میں آئیڈیل تھے،آپ کودیکھ کرسینکڑوں طلبہ نے صحافت کی جانب رخ کیا۔دارالعلوم دیوبندکے زمانے میں جب آپ نے صحافت کے موضوع پرشاہکارکتاب ”من شاہ جہانم” تصنیف کی تواس کتاب نے آپ کوراتوں رات صحافت کی دنیامیں مشہورکردیا۔من شاہ جہانم علماء برادری کی جانب سے صحافت کے موضوع پرباضابطہ پہلی تصنیف تھی۔یہ کتاب آج بھی صحافت کے طلبہ کے لئے رہنماکی حیثیت رکھتی ہے۔آپ بہت ہی ذہین اور اخاذذہن کے مالک تھے،اللہ نے آپ کوگوناگوں صلاحیتوں سے نوازاتھا،ملی وسماجی کاموں سے بہت پیش پیش رہتے تھے۔دارالعلوم دیوبندچھوڑنے کے بعدآپ نے مستقل طورپردہلی میں سکونت اختیارکی اوراسلامک پیس فاو?نڈیشن آف انڈیاکے نام سے ایک تنظیم کی بنیادڈالی۔آپ نے دہلی میںقیام کے بعداعلیٰ تعلیم کے حصول کی جانب متوجہ ہوئے اورجامعہ ملیہ سے گریجویشن کیااورجواہرلعل نہرویونیورسٹی سے ایم اے اورپھرپی ایچ ڈی کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔آپ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔