ممتاز عالم دین مولانا نظام الدین اصلاحی کا انتقالملک بھر میں غم کی لہر آبائی قبرستان میں تدفین۲۵؍ ستمبر ۲۰۲۲ءچاند پٹی اعظم گڑھ۔ممتاز عالم دین اور مشہور ملی رہنما مولانا نظام الدین اصلاحی کا آج صبح ارا میڈیکل کالج (لکھنؤ )میں مختصر علالت کے بعدانتقال ہوگیا ۔ وہ تقریباً پنچانوے سال کے تھے ۔ان کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی ملک کے طول و عرض میں پھیلے ان کے شاگردوں میں غم کی لہر دوڑ گئی ۔ آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ مولانا کا تعلق اعظم گڑھ کی مشہور بستی چاند پٹی سے تھا۔ وہ مشہور تحریکی رہنمامولانا ابو اللیث ندوی اصلاحی کے چچا زاد بھائی تھے ۔ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے فراغت کے بعدوہیں ۱۹۴۹ء سے۱۹۶۱ء تک بحیثیت معلم تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ۔ ۱۹۷۱ سے۲۰۱۹ء تک جامعۃ الفلاح میں بحیثیت استاد اور صدر مدرس کے فرائض انجام دئے ۔
اسی دورا ن مدھیہ پردیش اور گجرات کے امیر حلقہ بھی رہے ۔ مولانا نظام الدین اصلاحی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کورٹ ممبر رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔ مولانا نظام الدین صاحب ابتدا سے ہی جماعت اسلامی ہند کے قافلے میں شامل تھے اور اپنی عمر کا بیشتر حصہ اس تحریک کی آب یاری میں گزارا ۔ البتہ بٹلہ ہاؤس انکاونٹر کے بعد وہ راشٹر علماء کونسل میں شامل ہوگئے تھے اور آخر تک اس کونسل کے سرپرست کی حیثیت سے جانے گئے ۔ مولانا نظام الدین اصلاحی مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی کے ممتاز تلامذہ میں سے تھے ۔ مولانا کی وفات کے بعد وہ نسل جاتی رہی جنھوں نے براہ راست امین احسن اصلاحی سے قرآن پڑھا تھا ۔
وہ مولانا کے طریقہ تدریس سے بے حد متاثر تھے۔ اس کے علاوہ مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا صدر الدین اصلاحی اور مولانا ابو اللیث اصلاحی کا ذکر وہ بہت احترام سے کرتے تھے کیوں کہ یہ سب لوگ ان کے اساتذہ میں شامل تھے ۔اسی وجہ سے مولانا نظام الدین اصلاحی کا شمار قرآن پاک کے ممتاز عالموں میں ہوتا تھا ۔ جامعۃ الفلاح میں کئی دہائیوں تک انھوں نے شیخ التفسیر کے طور پر خدمت انجام دی ۔ اپنے مثالی طریقہ تدیس کی وجہ سے مولانا طلبہ میں بے حد مقبول تھے ۔آج ان کے شاگروں کی ایک بڑی تعداد مختلف دینی اداروں اور جدید دانش گاہوں میں علم و ادب کی خدمت انجام دے رہی ہے ۔ مولانا اپنے ان لائق شاگروں سے بہت خوش ہوتے تھے ۔ان کو داد و تحسین سے نوازتے ۔ مولانا نظام الدین اصلاحی تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف کا بھی ملکہ رکھتے تھے۔ مختلف رسائل میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں ۔ ایک دہائی پہلے مولانا کی باقاعدہ ایک کتاب اقامت دین کے موضوع پر شائع ہوئی تھی ۔
مولاناکا اصل جوہر اس وقت کھلتا تھاجب وہ تقریر کے لیے آتے تھے۔ وہ بہت عمدہ مقرر تھے ۔قرآن و حدیث اور حالات کے سیاسی تجزیہ سے وہ صحیح نتیجے پر پہنچتے تھے ۔ان کے جانے سے علم و ادب کے ایک باب کا خاتمہ ہوگیا۔مولانا کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا حالیہ ایک دہائی کے دوران انھوں نے بے شمار مستند اور معتبر کتابوں کا مطالعہ کیا بلکہ ان کتابوں کا حاصل مطالعہ بھی درج کرتے جاتے تھے ۔اس کے لیے انھوں نے ایک رجسٹر بھی تیار کر رکھا تھا ۔ علم و ادب کے شائقین کے لیے یہ اہم علمی خزانہ ہے ۔مرحوم کے پسماندگان میں دو بیٹے اورپانچ بیٹیاںشامل ہیں ۔