تحریر: ذاکر علی تیاگی
ایک سال سے متھرا جیل میں بند پی ایچ ڈی کے طالب علم و دل کے مریض عتیق الرحمٰن کے اہل خانہ پر کیا گزر رہی ہے ؟ آخر ان کاپریوار جیل میں گزرے عتیق الرحمٰن کے 365 دنوں کے لے کر کیا سوچتاہے؟ عتیق الرحمٰن کو ضمانت نہ ملنے کو لے کر قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں ان سب پہلوؤں کے جواب جان لینا ضروری ہے ۔
ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کے ریپ اور قتل کی کوریج پر نکلے صحافی صدیق کپن کے ساتھ متھرا پولیس نے کپن کے تین دیگر ساتھیوں عتیق الرحمٰن ، ٹیکسی ڈرائیور محمد عالم اور مسعود احمد کو گرفتار کرکےیو اے پی اے کے تحت جیل بھیج دیا تھا۔ جیل میں تمام ملزمین کو ایک سال کا وقت گزر چکاہے ، لیکن جیل میں بند عتیق الرحمٰن کے پریوار ،ان کی بیماری کی وجہ سے کیوں ہر روزڈر کے سایہ میں گزار رہاہے جانتے ہیں۔
نیوز کلیک نے ان اہم سوالات کے جوابات جاننےکے لیے عتیق الرحمن کی اہلیہ اور قانونی ماہر سے ٹیلی فون پر بات کی۔
عتیق الرحمٰن کو ان کے ساتھی صدیق کپن ، مسعود احمد ، محمد عالم کے ساتھ گزشتہ سال 5 اکتوبر کو یوپی پولیس نے متھرا کے جمنا ایکسپریس کے راستہ ہاتھرس جاتے وقت مانٹ ٹول پلازہ پر یوپی پولیس کے ذریعہ گرفتار کرلیاگیا تھا ۔ وہ ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے معاملے کو کورکرنے جا رہے تھے ۔
میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم عتیق الرحمن کی اہلیہ سنجیدہ رحمان نے ہمیں بتایا:
’’میرے شوہر پچھلے ایک سال سے متھرا جیل میں بند ہیں، وہ پہلے سے ہی دل کے مریض ہیں ، انہیں جیل میں بھی دل کا دورہ پڑچکا ہے ، وہ جیل کے اسپتال میں داخل ہیں ، آج تک ہماری ملاقات نہیں ہوئی ، صرف فون پر بات ہوئی ہوتی ہے ، میں اس وقت بہت بری صورتحال سے گزر رہی ہوں، عتیق الرحمٰن ہاتھرس میں دلت لڑکی کو انصاف دلانے جا رہے تھے لیکن پولیس نے انہیں مسلم ہونے کی وجہ سے یو اے پی اے لگا جیل میں ڈال دیا ۔ میں ہر وقت ڈرتی ہوں،کیونکہ میرے شوہر شدید بیماری سے متاثر ہیںاگر انہیں کچھ ہو گیا تو میرے بچے یتیم ہو جائیں گے۔ اگر ان کی سرجری نہیں ہوئی تو موت ہوسکتی ہے۔ ہم جی تو رہے ہوں گے لیکن مرچکے ہوں گے ،میرے بچے ہر رات کو اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے روتے بلکتے سوتے ہیں۔ میری بھی کوئی صبح اور شام ایسی نہیں جاتی ، جس میں اپنے شوہر کےبارے میں سوچ سوچ کر نا روتی ہوں۔ میرے شوہر صرف مسلم ہونے کی وجہ سے پھنسائے گئے ہیں۔ ہمیں یتیم کرنے کےلیے انہیں جیل میں ڈالا گیا ہے۔ ‘‘
یو اے پی اے کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا کیونکہ وہ مسلمان ہے ، میں ہر وقت خوفزدہ ہوں کیونکہ میرا شوہر شدید بیماری میں مبتلا ہے ، اگر ان کو کچھ ہوا تو میرے بچے یتیم ہو جائیں گے ، اگر ان کی سرجری نہ ہوئی تو وہ مر سکتے ہیں ، ہم زندہ رہتے لیکن ہم مر جاتے ، میرے بچے ہر رات اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے روتے ، میں بھی ایسی صبح اور شام نہیں جاتی ، جس میں میں اپنے شوہر کے بارے میں سوچ کر نہیں روتی ، میرے شوہر کو صرف اس لیے پھنسایا گیا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہے ، اسے ہمیں یتیم بنانے کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
’میں سماج سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے شوہر کے لیے ہر ضروری آواز اٹھائیں۔ انہیں جلد سے جلد رہا کرایا جائے اگر انہیں جلد انصاف ناملا تووہ شدید بیماری کی وجہ سے ہمارے درمیان نہیں ہوں گے،کیونکہ اوپن ہارٹ سرجری ہونی ہے ، لیکن اب وہ جیل میں ہے۔ میری سرکار سے گزارش ہے کہ میرے شوہر کو رہا کیاجائے تاکہ میں ان کا کسی بڑے اسپتال میں علاج کرواکر ان کا سایہ اپنے بچوں پر رکھ سکوں۔‘
اس معاملے میں ریٹائرڈ آئی جی ایس آر داراپوری نے کہا کہ ’اس معاملے میں حکومت نے تمام ملزمان کو ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے گرفتار کرکےجیل میں رکھا ہوا۔ورنہ ہاتھرس سانحہ کا دورہ کرنے کے لیے باقی لوگ اور سیاسی پارٹیوں کے لیڈر بھی گئے تھے، انہیں گرفتار نہیں کیاگیا، جب جیل میں کسی ملزم کی طبیعت سنگین ہوتی ہے تو جیل کے اسپتال میں وہ سہولیات نہیں ہوتیں جن کی مریض کو ضرورت ہوتی ہے ،اگر ان ملزمین میں کسی کی جان چلی گئی تو کون ذمہ دار ہو گا؟ اس پر سرکار کو سوچنا چاہئے اور جو ملزم بیمار ہے ان کو انسانی حقوق کی بنیاد پر ضمانت دلانے کے لیے عدالت میں ضمانت درخواست کا سرکار کو مخالفت نہیں کرنا چاہئے
یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کو غیر آئینی طریقے سے استعمال کر کے حکومت ہر اس شخص کی جان لینا چاہتی ہے جو سرکار کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتاہے ۔ میری سرکار سے اپیل ہے کہ عتیق الرحمٰن کی ضمانت کی مخالفت نہ کرنے، اور ضمانت دلانے میں اس کے اہل خانہ کی انسانیت کی بنیاد پر مدد کی جائے، تاکہ وہ اپنے پریوار کی نگرانی میں اچھے سے علاج کراسکیں۔
(مضمون نگار ایک آزاد صحافی ہیں)