تحریر: عبدالسلام عاصم
پاکستان اور بنگلہ دیش کے برعکس بحیثیت ملک ہندستان برصغیر کی اصل پہچان ہے۔ تہذیب کے حوالے سے اِس ملک کی آج بھی دنیا میں مثال دی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کے منفی واقعات پر دنیا ناراضگی سے زیادہ حیرانی ظاہر کرتی ہے۔ بعض ہمسایوں کے یہاں منفیات ہی ان کی پہچان ہیں۔ بنگلہ دیش نے اپنا نام بدلنے کے ساتھ تہذیب سوز پاکستانی پہچان کو ختم کرنے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ بھی ہندستان سے قربت کا ہی نتیجہ ہے لیکن مذہبی منافرت کا علاقائی اور عالمی دھندہ کرنے والوں نے ابھی ہار نہیں مانی جس کا ثبوت وہ واقعات ہیں جو حال ہی میں بنگلہ دیش میں اور پھر ردعمل کے نام پر ہندستان کی ریاست تریپورہ میں پیش آئے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے برعکس ہندستان ایسے واقعات کا قطعی متحمل نہیں کیونکہ ہندستانی اقلیتوں کا ملک کو آزاد کرنے میں مساویانہ کردار رہا۔ پاکستانی اقلیتوں نے متحدہ ہندستان کو تقسیم کرنے کی تحریک میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ اُنہیں بھی ہماری طرح آزادی چاہئے تھی لیکن ہمارے حصے میں تقسیم کے صدمے کے ساتھ آزادی کی خوشی آئی اور اُنہیں ایک ایسے گناہ کی سزا ملی جس کا ارتکاب اُن سے ہوا ہی نہیں تھا۔ ہندستانی مسلمان وطن عزیز کے سیاسی، سماجی، انتخابی اور حکومتی نظم کا حصہ کل بھی تھے اور آج بھی ہیں؛ جہاں عید اور دیوالی کی مبارک باد پوری قوم کو دی جاتی ہے کسی ایک فرقے کو نہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں غیر مسلمین دو درجاتی انتخابی نظام کے تحت کبھی ملک کی شناخت کا حصہ نہیں بنائے گئے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہندستان میں اقلیتوں کو شاملِ اکثریت کر کے پاکستان کی اخلاقی رہنمائی کی جاتی جو اپنے بد بختانہ عمل کی سزاعالمی تنہائی کی شکل میں کاٹنے کے بعد آج کل بظاہر نمائشی علاج میں مصروف ہے لیکن ایسا نہ کل کی حکومتیں کر پائیں نہ موجودہ انتظامیہ موثر ڈھنگ سے کوئی قابل تقلید قدم اٹھا پا رہی ہے۔ البتہ وطن عزیز میں بھی کسی اعلان کے بغیر کچھ اسی طرح کے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں جو خوش آئند نہیں ہیں۔ ہندستان کے عام ہندو یا مسلمان فرقہ وارانہ تشدد سے قطعی خوش نہیں۔ وہ ماضی کے واقعات کی ترجمانی اُس طرح نہیں کرتے جس طرح اتفاقی زخم سے ناسور بن جانے والا ہمارا ایک ہمسایہ کرتا آرہا ہے اور ایک سے زیادہ سزاؤں سے گزرنے کے بعد بھی اُسی راہ پر گامزن ہے۔
اس لحاظ سے وطنِ عزیز کے لئے فرقہ وارانہ منافرت فال نیک نہیں۔ اس سے جتنی جلد نجات حاصل کر لی جائے اتنا بہتر ہوگا۔ بصورت دیگر دوسری اقوام کیلئے ہم بھی اسی طرح عبرت کی مثال بن جائیں گے جس طرح دوسرے بنے ہوئے ہیں۔ جس تواتر کے ساتھ واقعات سامنے آ رہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے لازم ہے کہ کسی تاخیر سے پہلے سیاسی، سماجی اور تہذیبی مقتدرات کے ذمہ داران سرگرم اقدامات کرنے کی طرف عملاً آگے بڑھیں۔ عوامی نمائندوں کو یہ باور کرایا جائے کہ کسی بھی غیر خوش آئند واقعے کو انتخابی محاذ پر بھنانے کی کوشش محدود فائدے کے ساتھ لامحدود خسارے کا سبب بنتی آئی ہے اور آئندہ بھی بنے گی۔ چین سے آنکھیں ملانے کی دہلیز پر کھڑا اتنی بڑی آبادی والا ملک ہندستان ایسی کسی فاش غلطی کا متحمل نہیں۔
ہندستانی مسلمانوں کی دنیا میں ایک الگ پہچان ہے۔ یہ بنیادی طور پر امن پسند اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقا کے ضامن ہیں۔ اس ملک میں انتہا پسندی، دہشت گردی اور ماب لنچنگ کے واقعات اور سخت گیر تنظیموں کے بیانات اخباری سرخیوں سے گزر کر بھی یومیہ زندگی کا حصہ نہیں بن پائے ہیں۔ ہندو اور مسلمان دونوں تشدد کے ایسے تمام واقعات کی مذمت کرتے ہیں جو کہیں یکطرفہ طور پر، کہیں شدت پسندوں کے باہمی اشتراک سے تو کہیں خارجی مداخلت کے سبب برپا ہوتے ہیں۔
پوچھا جا سکتا ہے کہ ہم اتنے ہی اچھے ہیں تو اتنے برے لوگ یہاں میدان سے ایوان تک کیسے سر اٹھا پاتے ہیں۔ اس کا دو ٹوک اور آسان جواب یہ ہے کہ ہم بھی انسان ہیں اور ہماری انسانی کمزوریاں بعض اوقات تکلیف دہ واقعات مرتب کر دیتی ہیں جس پر ہماری شرمندگی بہر حال ہمیں فوراً تائب ہونے پر آمادہ کرتی ہے۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے کچھ ایسی ڈھٹائی بھی سامنے آئی ہے جس میں دیکھا گیا ہے کہ ایک چھوٹے سے حلقے کی طرف سے کسی نہ کسی زیادتی کی ستائش کی گئی ہے۔ یہ ایک طرح سے وارننگ ہے ان لوگوں کیلئے جو کسی بھی خرابی کے ازالے میں کسل مندی سے کام لیتے ہیں۔ تریپورہ کے واقعات اسی نوعیت کے ہیں۔ بعض سیاسی لیڈروں کے متعلقہ بیانات بھی سخت تکلیف پہنچاتے ہیں۔ یوپی میں آئندہ کچھ مہینوں کے بعد اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ایسے میں لیڈروں کی بیان بازی تیز ہونے لگی ہے۔ بین فرقہ منافرت بھنانے پر یقین رکھنے والے ایک لیڈر نے کچھ اس قسم کا بیان دے ڈالا کہ”4 بیویوں اور 40 بچوں والے آپ کا سب کچھ قبضہ کرنا چاہتے ہیں“۔ تریپورہ کا ابھی زخم تازہ ہے۔ اگر ایسی باتوں کا بروقت نوٹس نہیں لیا گیا تو موجودہ حکومت کی دہائیاں بھی حسبِ سابق ضائع ہو جائیں گی۔
خوش قسمتی سے ہم اپنی اصلاح کیلئے خود اپنا ہی ماضی رکھتے ہیں۔ ہمیں دور کی کوڑیوں یا کتابی مثالوں کی ضرورت نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ملک کے موجودہ حکمراں حکمرانی کو انجوائے کرنے کی سابقہ روایت کو توڑتے ہوئے ذہنوں کو بدلنے والا ایسا انقلاب لائیں کہ عوام کے ساتھ عوامی نمائندوں کی بھی عملاً اصلاح ہو اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ذاتی وابستگی والے ہمارے جذبات بھی یہاں سڑکوں اور عوامی جلسوں کے بجائے گھروں کی زینت بن جائیں اورگھر سے باہر ہم سب ہندستانی عوام نظر آئیں۔ ایک دوسرے کی بائی ڈیفالٹ مذہبی پہچان کو اگر ہمارے سماج کا کوئی حلقہ ایک دوسرے کیلئے خطرہ سمجھنے لگا ہے تو ہمیں ہوشیار ہو جانا چاہئے کیونکہ قوموں کی تاراجی اور تباہی کا سامان اسی طرح کیا جاتا ہے جس کی کچھ مثالیں افغانستان سے یمن تک ہمارے سامنے آج بھی موجود ہیں۔ گرو گرام (ہریانہ) میں نماز کے تعلق سے جس طرح فرقہ وارانہ جذبات کیش کئے جا رہے ہیں وہ ریل گاڑی کے ڈبے کے اُس منظر سے ہرگز میل نہیں کھاتے جس میں نماز اور پوجا کیلئے ہندو اور مسلمان مسافر ایک دوسرے کیلئے ایسی گنجائش نکالتے ہیں کہ رسم بھی نبھ جائے اور کسی تیسرے کو نقل و حرکت کی دشواری بھی نہ پیش آئے۔ نماز اور پوجا کیلئے سڑکوں کے استعمال سے لوگوں کو پہلے بھی روکا گیا ہے لیکن اُس مداخلت میں علمی نیک نیتی ہوتی تھی نظریاتی بد نیتی نہیں۔
بہر حال مایوس ہونے کی ضرورت نہیں؛ ہندستان بدل رہا ہے اور تبدیلی کے انتہائی مراحل سخت واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔ مذہبی شدت پسندی کا چراغ بجھنے سے پہلے بہت تیز بھڑکنے کے مرحلے میں ہے۔ بہتر ہم سائیگی کو بنیادی طور پر عوام ترستے ہیں حکمران نہیں لیکن جب سماجی سوچ بدلتی ہے تو نئے حکمراں بھی اسی سوچ کی عکاسی کرنے لگتے ہیں۔ اگر آج کے حکمراں کل کی پرورش کا نتیجہ ہیں تو کل کے حکمراں آج کے ہمارے ہوش کے ناخن لینے کا نتیجہ ہوں گے۔ اِس لئے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ تبدیلی کے رخ پر سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ رات کا پچھلا پہر ہے۔ سیاسی، سماجی اور انتخابی انگڑائیوں میں تیزی سے بھی صاف واضح ہے کہ عوام کی سوچ بدل رہی ہے۔ بقول سالک لکھنوئی:
نئی امنگیں روایتوں کے حصار ڈھانے پہ تل گئی ہیں
یہ قید خانے نہیں رہیں گے، بدل رہا ہے مزاجِ عالم