مسلکی جماعتی مفادات اجتماعی مفادات پر اس قدر حاوی ہیں کہ مسلمانوں میں اتحاد کی اپیل کرنے والے رویت ہلال جیسے معاملات پر بھی ایک نہیں ہوسکتے خود ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر مسلمانوں کوانتشار سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔
خبراگرچہ تھوڑی سی پرانی ہے مگر ہے ہمہ وقت اہمیت کا احساس دلانے والی۔دہلی میں کئی رویت ہلال کمیٹی کام کر رہی ہیں جو خاص طور سے شعبان‘رمضان ‘محرم اور ربیع الاول میں سرگرم ہوتی ہیں ان میں جمعیۃ علماء ہند(م)مسجد فتح پوری، شاہجہانی جامع مسجد،مرکزی اہل حدیث رویت ہلال کمیٹی اور ایک غالبا سنی رویت ہلال کمیٹی ہے۔ چاند دیکھنے کا اہتمام اور اس پر باہمی مشاورت کے لئے بھی یہ کمیٹیاں ایک جگہ بیٹھنے میں تکلف سے کام لیتی ہیں گرچہ ان کے درمیان رویت کے معاملہ میں اختلاف کم ہوا ہے لیکن اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ خصوصا مذکورہ مہینوں میں اختلافات کے سبب کیا صورت حال ہوسکتی ہے اور ماضی میں ہوئی ہے کہ دہلی کے شہریوں کو تین تین عیدیں منانی پڑیں۔
دلچسپ بات دیکھئے کہ ایک رویت ہلال کمیٹی نے جس کانام لکھنا مناسب نہیں اپنوں کا پردہ بھی ضروری ہے اپنی پریس ریلیزمیں لکھا۔’’ چاند دیکھنےکا اہتمام کریں اور فلاں فلاں نمبر پرمصدقہ رویت کی اطلاع ہماری کمیٹی کو دینا نہ بھولیں‘‘ یہاں تک غنیمت ہے۔ آگے لکھا ہے۔’’کمیٹی کے اعلان رویت یا عدم رویت کے اعلان کے بعد ہی مقامی طور پروہاٹس ایپ و دیگر ذرائع سے اعلان کریں اور امت وجماعت کو انتشار سے بچائیں۔ آگے مشورہ ہے ملی تنظیمیں اعلان سے قبل ایک دوسرے سے مشورہ کریں تاکہ امت وملت کسی طرح کے انتشار وخدشے میں مبتلا نہ ہوں۔‘‘الحمد للہ۔ یعنی ہم اس حوالہ سے بھی بھرپور کردار ادا کرتے ہیں اتحاد کا آغاز تو گھر سے ہی ہوتا ہے۔جناب چھوٹے چھوٹے گھروندے بناکر اتحاد واتفاق کی اپیل کتنی جائز ومناسب ہے فیصلہ خود کریں،نام ونمود مسلکی تفرق،جماعتی برتری کے مزاج نے اتنی گنجائش تو بہرحال رکھ چھوڑی ہے کہ زبان سے ہی سہی ایک ہونے کی تلقین کرتے رہیں ورنہ رویوں کی جبریت وسفاکیت کسی دوسرے کو زندہ رہنے اور سانس لینے کی اجازت کب دیتی ہے۔