لکھنؤ :(ایجنسی)
اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں اب پاکستانی کی انٹری ہوچکی ہے۔ بی جے پی نے ایک انٹرویو میں سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے بیان کو مدعا بنالیا ہے۔ لیکن ایس پی نے بھی اس کا جواب دے دیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بانی پاکستان محمد علی جناح کے بارے میں دیے گئے بیان پر بی جے پی نے بھی اکھلیش یادو کے خلاف محاذ کھول دیا تھا۔
ہوا یوں کہ اکھلیش یادو نے ٹائمز گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا اصل دشمن چین ہے، پاکستان ہمارا سیاسی دشمن ہے اور بی جے پی ووٹ کی سیاست کے لیے پاکستان کو نشانہ بناتی ہے۔
اکھلیش کے بیان پر بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا فوراً میدان میں آگئے۔ پاترا نے کہا کہ اکھلیش یادو جناح کے نام کا نعرہ لگا کر اترپردیش کے انتخابات میں اترے تھے اور آج وہ جناح سے ایک درجے اوپر پاکستان پہنچ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو جناح سے محبت کرتا ہے وہ پاکستان سے کیسے انکار کر سکتا ہے۔ پاترا نے کہا کہ اسمبلی انتخابات میں اکھلیش یادو پاکستان اور جناح لے کر آئے ہیں۔
لیکن ایس پی کے ترجمان انوراگ بھدوریا نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 5 سال تک حکومت چلانے کے بعد بھی بی جے پی اپنے کام کا حساب نہیں دے پا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نفرت کی سیاست کے اپنے پرانے راستے پر چل رہی ہے لیکن اتر پردیش کے لوگ باخبر ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ریاست میں اگر کوئی ترقی کر سکتا ہے تو وہ ایس پی ہے۔
چند ماہ قبل اکھلیش یادو نے ایک انتخابی ریلی میں کہا تھا کہ مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو اور محمد علی جناح ایک ہی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرسٹر بن کر آئے تھے۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سمیت کئی لیڈروں نے اکھلیش کو جناح وادی کہنا شروع کر دیاتھا۔
اکھلیش یادو کے جناح والے اور اب پاکستان کے بارے میںاس بیان کو بی جے پی نے پکڑ لیا ہے۔ حالانکہ ایس پی بھی اس پر ردعمل دے رہی ہے، لیکن انتخابی سیاست میں ایسے بیانات کا استعمال صرف ووٹوں کو پولرائز کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف، بی جے پی نے ایک بار پھر کیرانہ سے مبینہ نقل مکانی کو انتخابات میں ایشو بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ پولرائز کرنا چاہتی ہے۔