عمر فراہی
سابق سپریم کورٹ جج جسٹس کاٹجو کی مانی جائے تو دانش اپنی موت کا ذمہ دار خود ہے۔ وہ اپنے ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ مجھے دانش کی موت کا سن کر افسوس تو ہوا لیکن حیرت بھی ہوئی کہ
Why he embedded himself with the Afghan army which is regarded by the Afghan people as puppets,since it was created by the invaders ?
اس نے اس افغان فوج کی نگرانی میں اپنی صحافتی ذمہ اری ادا کرنے کا جوکھم اٹھایا جو افغانستان کے عوام کی نظر میں یہ ایک پٹھو حکومت ہے جسے حملہ آوروں نے افغانستان کے عوام پر تھوپا ہے ۔
یہاں پر جیسا کہ کاٹجو صاحب نے انگلش کے لفظ embedded کا استعمال کیا ہے تو ہم بتا دیں کہembedded لفظ کا استعمال اکثر الیکٹرانک مائیکروسافٹ انجینئرنگ میں اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ اس کمپیوٹر انجینئرنگ میں سیکڑوں ہزاروں سسٹم ایک طے شدہ مانیٹر سسٹم سے کنٹرول کیا جاتے ہے ۔یہاں اردو میں ہم اس لفظ کے معنی وابستگی کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
صحافت کے میدان میں اس لفظ کو embedded journalism کی اصطلاح کے طور پر سب سے پہلے 2003 میں اس وقت استعمال میں لایا گیا جب 9/11 کے بعد امریکہ نے اپنے فاتحانہ تیور کے بعد افغانستان میں اپنی فوج اتاری اور طالبان پسپا ہونے پر مجبور ہوئے ۔یہ embedded journalist ہی تھے جنھوں نے دکھایا کہ کیسے وہ لوگ جنہوں نے طالبان کے خوف سے داڑھیاں رکھ لی تھیں انہوں نے نائی کی دکان پر داڑھیاں نکالنے کیلئے قطار لگائی ہوئی ہے اور عورتیں اپنے حجاب اتار کر پھینک رہی ہیں یا جلا رہی ہیں ۔اکثر کچھ غیر انسانی حرکتیں قابض اور حملہ آور فوجوں نے کچھ لوگوں کو کرتا پائجامہ پہنا کر خود انجام دیا اور embedded journalist نے اسے طالبان کی طرف منسوب کر دیا ۔طالبان کو پسپا کرنے کے بعد جب امریکہ اور اس کے اتحادی اور یہ embedded journalist اپنے فاتحانہ تیور کے ساتھ عراق اور صدام حسین پر فتح کرنے کیلئے بڑھے تو انہیں یقین تھا کہ صدام حسین اور ان کے فوجی کمانڈر گھٹنے ٹیک دیں گے اور پھر وہ بغداد کے بادشاہوں کو رسی میں باندھ کر قید کر کر کے گھمائیں گے اور پھر دنیا دیکھے گی کہ صلیبی آج بھی غالب ہیں ۔
عراق میں جس طرح امریکی فوجیں صدام حسین کے محلات اور ان کے مجسمات کو منہدم کر رہے تھے embedded journalists نے اپنے کیمروں سے عراق کی اس تباہی کو مشتہر کر کے cheer leaders کا کردار ادا کیا اور خوشیاں منائی ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ embedded journalist صرف ایک ملک اور اس کی ملیٹری کی نگرانی میں اسی کیلئے پروپگنڈہ مشینری کے طور پر کام کرتے ہیں اور انہیں اس ملک کی طرف سے اس کا بھر پور معاوضہ ملتا ہے۔ اردو میں اس embedded journalist کو لفافہ جرنلسٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔اس لفافہ جرنلسٹ کی ایجاد کب ہوئی پتہ نہیں لیکن اس embedded journalist کیلئے ادھر کچھ دنوں سے گودی میڈیا کا بھی استعمال کیا جانے لگا ہے ۔مگر جو حقائق آزادانہ ذرائع سے کچھ صحافی سامنے لاتے ہیں انہیں Free lancer کہتے ہیں ۔
دانش صدیقی صاحب اپنے پیشے میں کتنے مخلص اور کتنے ایماندار تھے یہ تو خیر ان کے بہت قریب رہنے والے لوگ ہی بتا سکتے ہیں لیکن بظاہر وہ افغانستان کے سفر پر Free lancer کے طور پر نہیں بلکہ بین الاقوامی پریس ایجنسی رائٹرز کی طرف سے افغان حکومت کی دعوت اور نگرانی میں embedded journalist کے طور پر کام کر رہے تھے اور ممکن ہے کہ رائٹرز نے افغان حکومت سے ایک ذہین اور باصلاحیت فوٹو گرافر کے بدلے خوبصورت معاوضہ کا معاہدہ کیا ہو ۔جیسا کہ خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغان فوج جب جب جہاں جہاں فوجی آپریشن میں مصروف ہوتی دانش کو بھی ان کے ساتھ وہاں وہاں جانا ہوتا تھا ۔ اسی لئے ایک ایسے وقت میں جب افغان فوجی گاڑیاں پاکستانی سرحد پر قابض طالبان عسکریت پسندوں سے مقابلہ آرائی کیلئے کوچ کر رہی تھیں تو دانش بھی اسی گاڑی میں سوار تھے ۔بدقسمتی سے راستے میں چھپے ہوئے طالبانی جنگجوؤں نے ان کے قافلے پر حملہ کردیا ۔اس حملے میں افغان فوجیوں کی جو تین گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں ان میں سے ایک گاڑی میں دانش صدیقی اور کچھ افغان فوج کے کمانڈر بھی موجود تھے ۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دانش نے اپنی موت کو خود دعوت دی تھی ۔ورنہ دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی پریس ایجنسی Free lance کے طور پر آزادانہ رپورٹنگ کرتی ہے تو وہ جنگ میں دونوں فریق کو پہلے سے اطلاع کر دیتے ہیں اور ان کی گاڑیوں پر پریس کے اسٹیکر کے ساتھ سفید جھنڈے بھی ہوتے ہیں یا فوٹو گرافروں کی جماعت بہت دور سے زوم لینس کیمروں کی مدد سے فوٹو گرافی کا کام انجام دیتے ہیں ۔اس تعلق سے سری لنکا میں LTTE اور وہاں کی حکومت کے درمیان جو گھمسان کی جنگ جاری تھی انڈیا ٹوڈے نے کئی سال پہلے خاص طور سے فوٹو گرافروں کے اس جوکھم بھرے کردار پر ایک پورا ضمیمہ ہی نکالا تھا کہ کس طرح فوٹو گرافر درختوں اور گھروں کی چھتوں پر چھپ کر اپنا کام انجام دیا کرتے تھے ۔
اس کے علاوہ پریس کی گاڑیاں صرف دن میں ہی اپنا کام انجام دیتی ہیں جبکہ دانش جس فوجی گاڑی میں شریک تھے اس پر جو حملہ ہوا وہ رات میں ہوا ہے ۔یقین نہیں ہوتا کہ ایک ذہین اور باصلاحیت اور کئی بار بیرونی ممالک میں رپورٹنگ کرتے رہنے والا فوٹو جرنلسٹ بھی کس طرح ایک ایسے ملک میں تنہا ایک کمزور حکومت کی فوج کی نگرانی میں جو کہ خود ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کی طرح ہے رپورٹنگ کرنے کا ناقص فیصلہ لے سکتا ہے !
مشکل یہ بھی ہے کہ اپنے بندوں کو تھوڑا سا پر کیا نکل آتے ہیں کچھ زیادہ ہی سیکولر اور لبرل بھی ہو جاتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی یہ پرواز بھی کسی ادارے کے ماتحت embedded ہے ۔embeded ہونا بری بات نہیں ہے جبکہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد کہیں نہ کہیں کسی سے وابستہ یا embedded ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کن لوگوں سے وابستہ ہیں ؟ اور آپ کن لوگوں کیلئے اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں جبکہ افغانستان کی صورتحال ایسی ہے کہ اس وقت دنیا کے طاقتور سے طاقتور ملک طالبان کےخلاف افغان حکومت کی مدد کیلئے اپنی فوج بھیجنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔اس کے برعکس کئی ممالک اس انتظار میں ہیں کہ طالبان اقتدار میں آئیں اور وہ انہیں تسلیم کرکے تجارتی معاہدہ کرنا شروع کردیں ۔اسے کہتے ہیں ترجیحات اور موقع پرستی کی سیاست۔ دجل و فریب کی موجودہ دنیا میں جو اس اصول سے بغاوت کرے گا وہ مارا جائے گا۔ افغانستان کے معاملے میں امریکہ نے یہی کیا ۔بھارت اور دانش کو بھی یہی کرنا چاہئے اور پاکستان بھی یہی کر رہا ہے ۔آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اشرف غنی کا چارٹرڈ ہوائی جہاز بھی اس موقع کے انتظار میں نہیں ہوگا کہ جہاں طالبان کابل پر قبضہ کرنے کے قریب آپہنچے وہ کسی یوروپی ملک میں پرواز کر جائے کیوں کہ اشرف غنی کمیونسٹ ڈکٹیٹر نجیب اللہ کی طرح کسی درخت سے مرا ہوا لٹکنا نہیں چاہیں گے !