نئ دہلی:مرکزی حکومت نے پیر کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ مذہب کی آزادی کے حق میں دوسرے لوگوں کا مذہب تبدیل کرنے کا بنیادی حق شامل نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے یہ بات کہی ہے۔ تقریباً پندرہ دن قبل سپریم کورٹ نے مرکز سے حلف نامہ داخل کرنے کو کہا تھا۔
گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے ملک میں جبری تبدیلی مذہب کے معاملے پر تشویش ظاہر کی تھی اور مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ جبری تبدیلی مذہب بہت سنگین مسئلہ ہے۔ اس نے مرکزی حکومت سے کہا تھا کہ وہ ایسے معاملات کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
ستیہ ہندی ڈاٹ کام کے مطابق سپریم کورٹ اشونی کمار اپادھیائے ایڈووکیٹ کی عرضی پر سماعت کر رہی ہے۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ ملک بھر میں دھوکہ دہی کے ذریعے تبدیلی مذہب کی جارہی ہے، مرکزی حکومت اس لعنت پرقابو پانے میں ناکام رہی ہے۔
مرکز نے حلف نامہ میں کہا ہے کہ اس معاملے کی سنگینی اس کے علم میں ہے۔ مرکز نے اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ تبدیلی کے اس طرح کے معاملے میں مرکز انتہائی سنجیدگی کے ساتھ مناسب قدم اٹھائے گا کیونکہ مرکزی حکومت اس خطرے سے واقف ہے، اے این آئی کی رپورٹ کے مطابق اس میں کہا گیا ہے کہ ‘مذہب کی آزادی کے حق میں یقینی طور پر دھوکہ دہی، ، زبردستی، لالچ یا اس طرح کے دیگر طریقوں سے کسی بھی شخص کو مذہب تبدیل کرنے کا حق شامل نہیں ہے۔’
مرکزی حکومت نے مزید کہا ہے کہ نو ریاستوں نے اس عمل کو روکنے کے لیے ایکٹ پاس کیا۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ اوڈیشہ، مدھیہ پردیش، گجرات، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، اتراکھنڈ، اتر پردیش، کرناٹک اور ہریانہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں پہلے سے ہی تبدیلی مذہب سے متعلق قوانین موجود ہیں۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ‘ایسے قوانین سماج کے کمزور طبقات بشمول خواتین اور معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں’۔
بنچ نے اب اس معاملے کی سماعت کے لیے 5 دسمبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔