تحریر :محمد خالد (لکھنؤ)
ملک کے موجودہ حالات میں معاشرے کی بہتری کے لئے فکر مند اشخاص اور تنظیموں کے ذریعہ منعقد کرائے جانے والے پروگراموں کے لئے مندرجہ بالا یہ چند عناوین استعمال کئے جاتے ہیں جن کے تحت پورے ملک خاص طور پر نارتھ انڈیا میں ہندو مسلم اتحاد کے پروگرام کا سلسلہ لمبی مدت سے جاری ھے اور لوگ بغیر کسی غور و فکر اور نتائج کا جائزہ لئے پروگرام پر پروگرام کرا رھے ہیں. ان پروگراموں کا نتیجہ دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ شاید اس طرح کے پروگرام سے ہم آہنگی تو کم ہی پیدا ہو رہی ھے اور یہ پروگرام ہندو مسلم میں دوری بڑھانے کا ذریعہ زیادہ بن رھے ہیں کیونکہ ان پروگراموں میں کبھی ان ہندو مسلم افراد کو مدعو نہیں کیا جاتا جن کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رھا ھے. جو ہندو شخصیات بی جے پی سے اختلاف رکھتی ہیں ان کو اس طرح کے پروگراموں میں بڑی اہمیت حاصل ہوتی ھے اور وہ لوگ خوب بڑھ چڑھ کر بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف بولتے ہیں پھر بی جے پی کے لوگ ان تقریروں کو عام ہندوؤں کے درمیان لے جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ دیکھو کس طرح ہندوؤں کے خلاف ماحول بنایا جا رھا ھے تو پھر اس کے نتیجے میں بی جے پی حامی لوگ نعرہ لگاتے ہیں کہ "جاگو، ہندو خطرہ میں ھے”انسانی زندگی میں کئے جانے والے معاملات کا جائزہ لیا جانا انتہائی ضروری ھے ورنہ نقصان سے بچ پانا تقریباً ناممکن ھے. مثال کے طور پر "علاج بیمار کا کیا جاتا ھے، صحت مند کا نہیں” اور حال یہ ھے کہ مصلحین معاشرہ کے ذریعہ معاشرتی طور پر صحت مند لوگوں کا علاج کر کر کے معاشرے کے تئیں بیمار بنایا جا رھا ھے. لہٰذا جو لوگ ہندو مسلم اتحاد کو بگاڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ان تک پہنچ کر ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور صحیح اور غلط کا فرق سمجھانے کی ضرورت ھے. مگر یہ بہت مشکل کام ھے کیونکہ اس کام کے لئے مستقل لگنا ہوگا اور اس کے مقابلے پروگرام کرا دینا بہت آسان. لہٰذا اس طرح کے پروگراموں کو منعقد کرانے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کا مقصد صرف پروگرام کرانا ھے یا معاشرے کو پُر امن اور خوشحال بنانے کی جدوجہد کرنا. وقتاً فوقتاً اس طرح کی اطلاعات بھی اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ کسی شخصیت کو پروگرام میں مہمان خصوصی بنایا جاتا ھے اور اسی پروگرام کی صدارت کر رھے آر ایس ایس، بی جے پی مخالف شخص یا کسی مقرر کے ذریعہ مہمان خصوصی کے ہاتھوں میمونٹو یا گلدستہ قبول کرنے سے انکار کر دیا جاتا ھے تو ایسا کر کے کیا ہم مہمان خصوصی کے حلقہ اثر کو اپنا دشمن نہیں بنا رھے ہوتے ہیں. کیا اس طرح کے رویہ سے اتحاد کی امید کی جا سکتی ھے.بات کا اختتام محسن انسانیت، ہادی آخر حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کے واقعہ طائف سے کرنا