تحریر: احمد قاسم
’ہماری شادی کو پورے دو سال بھی نہیں ہوئے ، یہ میری زندگی کے خوشگوار لمحات تھے ،لیکن اس کے جیل جانے کے بعد زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے ، میں ہر روز اس امید پر رہتی ہوں کہ وہ اگلی سماعت پر رہا ہو جائیں گے،لیکن میں ناامید ہوکر گھر لوٹ آتی ہوں ۔ عالم ایک ایسی سزا کاٹ رہے ہیں جس کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے ۔ ‘‘
یہ الفاظ اترپردیش کی متھرا جیل میں گزشتہ ایک سال قید 30 سالہ کیب ڈرائیو ر محمد عالم کی بیوی بشریٰ کے ہیں ۔
بتادیں کہ کانپور کے رہنے والے محمد عالم ایک کیب ڈرائیور ہیں۔ انہیں گزشتہ سال 5 اکتوبر 2020 کو ہاتھرس گینگ ریپ متاثرہ کے پریوار سے ملنے جارہے صحافی صدیقی کپن و دیگر لوگوں کے ساتھ یوپی پولیس نے یو اے پی اے کی سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرلیا تھا۔ ان پر اس دوران سرکار کے خلاف بڑے پیمانے پر ہوئے احتجاج کے دوران امن میں خلل ڈالنے کی سازش کرنے کاالزام ہے ۔
بشریٰ کہتی ہیں ،’ ’وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے ، اس کا کام لوگوں کو ان کی منزل تک پہنچانا ہے ، روز مرہ کی طرح اس دن بھی ان کے پاس بکنگ آئی تھی، وہ صدیق کپن اور دیگر لوگوں کو بھی نہیں جانتے تھے ، وہ ایک ڈرائیور کے طور پر انہیں لے کرہاتھرس جا رہے تھے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں ، ’’میں ایک سال سے انصاف کی امید میں پوری طرح ٹوٹ چکی ہوں ۔‘‘
عالم کی گرفتاری کے وقت ان کی شادی کو صرف ڈیڑھ سال گزرے تھے ، عالم اور بشریٰ دہلی کے سندر نگر علاقے میں کرائے کے مکان میں رہ رہے تھے ، عالم 10-12 سال سے ڈرائیونگ کا کام کر رہے ہیں ۔ لاک ڈاؤن میں معاشی حالت بگڑنے کے بعد جب وہ بے روزگار ہو گئے تھے ، بعد میں انہوں نے ایک رشتہ دار کی مدد سے گاڑی لی تھی، وہ بتاتی ہیں کہ عالم کی گرفتاری کے بعد اسے گھر کا کرایہ بھی ادا کرنا پڑا رہا ہے، حالانکہ اس کی آمدنی کچھ نہیں۔
بشریٰ نے کہاکہ:’’عالم نے 5 اکتوبر کو صبح 9 بجے کے قریب فون کرکے بتایاتھا کہ ہم ہاتھرس جا رہے ہیں ۔ شام میں جب وہ گھر نہیںلوٹے تو ہمیں فکر ہوئی ۔ اگلے دن تک معلوم نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہیں؟ اگلے دن متھرا کے مانٹ تھانہ سے ان کا فون آیا اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ پولیس انہیں پوچھ گچھ کے لیے یہاں لائی ہے۔ جلد گھر آجائیں گے ۔ لیکن آج ایک سال گزر گیا ہے وہ اب بھی جیل میں ہیں۔ ہر دن لگتا رہا کہ شام میں لوٹ آئیں گے ،لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شرو ع میں مجھے کورٹ سے بہت امید تھی لیکن تاریخ پر تاریخ ٹلنے کے بعد اب ٹوٹ چکی ہوں۔ ‘‘
واضح رہےکہ 5 اکتوبر 2020 کو پولیس نے متھرا کے قریب قومی شاہراہ پر کپن ، مسعود ، عتیق الرحمن اور ان کے ڈرائیور عالم کو گرفتار کیاتھا۔ پولیس نے شروع میں ان پر ہاتھرس میں داخل ہونے کی کوشش کے لیے معاملہ درج کیا تھا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امن میں خلل ڈالنے کا شک تھا۔ پولیس نے سی آرپی سی کی دفعہ 151 ( قابل شناخت جرائم کو روکنے کے لیے گرفتاری) ، 107 (امن قائم رکھنے کے لیے دیگر معاملات میں سیکورٹی) اور 116 (اطلاع کی بنیاد پرپوچھ گچھ) کا استعمال کیا اور جیل بھیج دیا۔ پولیس نے دلیل دی کہ ابتدائی جانچ میں پایا گیاکہ وہ ہاتھرس میں امن اور قانون وانتظام کو بگاڑنے کےلیے مجرمانہ سازش کی جارہی تھی ۔ بعدمیں پولیس نے ان پر یو اے پی اے اورغداری کاالزام عائد کیا، جس سے ضمانت کے امکانات کم ہوگئے ۔
رجسٹرڈ کیس میں پولیس نے چھ ماہ تک کوئی ثبوت نہیں دیا۔ انہوں نے مقررہ وقت کے اندر چارج شیٹ بھی داخل نہیں کی ، جس سے ملزمان کے وکلاء کو عدالت کا رخ کرنا پڑا۔ سب ڈویژنل مجسٹریٹ رام دت رام نے ابتدائی کیس میں مقدمات کو ختم کر دیا ، تاہم ، وہ اب بھی یو اے پی اے کے تحت سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
بشریٰ کہتی ہیں ، ’’کیا کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ میرا شوہر ایک سال جیل میں کیوں ہے ، نہیں کیونکہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا ، ہاں ، میرے شوہر کے جیل میں رہنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں ، اگر ایسا ہے تو اس ملک میں مسلمان ہونا جرم ہے ، پھر ان سب پر یو اے پی اے لگائیں جو مسلمان ہیں ، پھر تمام مسلمانوں کو جیل میں ڈالیں ، ہر ایک پر یو اے پی اے لگائیں۔‘‘
انہوں نے کہاکہ’’میری زندگی کےمطلب ہی بدل گیا ہے۔ جو انسان خوش مزاج تھا ، جس نے آج تک کوئی کرائم تک نہیں کیا اسے یو اے پی اے جیسے سنگین الزامات میں قید کر لیا جانا کیسا قانون اور انصاف ہے؟ میری ماں ،ابو سب ہی فکرمند ہیں ۔ پورا پریوار صدمے میں ہے کہ یہ ہمارے ساتھ کیوں ہو رہا ہے ؟‘‘
محمد عالم کے وکیل مدھوون نے 3 اپریل کو دائر چارج شیٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ چارج شیٹ کے جس حصہ میں عالم پر لگائے الزامات کا حوالہ ہے وہ سب بے بنیاد ہیں۔ 3 اپریل کو اس معاملے میں جو چارج چیٹ دائر کی گئی اس کے جس حصے میں عالم کو لے کر بحث کی گئی ہے وہاں نظر آر ہا ہے ہر الزام بے بنیاد ہے ۔ عالم ایک سال جیل میں اس لئے ہے کیونکہ اس کے اوپر یو اے پی اے اورغداری جیسی سنگین دفعات لگائی گئی ہیں ۔
مدھوون دت عالم کے پی ایف آئی اور اس کے طلبا تنظیم سی ایف آئی سے اس کے تعلق پر کہتے ہیں ’’ عالم پر پاپولر فرنٹ سے تعلق کے معاملے میں چارج شیٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے، عالمکسی ایکٹیو ٹی میں شامل رہا ہو یا سوشل میڈیا کے ذریعہ سے کسی ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہو ایسا بھی کوئی ذکر نہیں ہے ۔ پولیس نے عالم پر لاک ڈاؤن کے دوران فنڈنگ کے ذریعہ گاڑی خریدے جانے کا شک ظاہر کیا ہے،پولیس کےپاس کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے۔ عالم صرف غداری اوریو اے پی اے جیسی سنگین دفعات کے تحت جیل میں ہیں ۔ ‘‘
مدھوون دت کا مزید کہنا ہے کہ ’عالم کی ضمانت کی درخواست ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے اور توقع ہے کہ عالم جلد سماعت کے بعد رہا ہو جائے گا۔ پولیس عدالت میں یہ ثابت کرنے سے قاصر رہے گی کہ عالم کسی سازش یا ان دفعات کی سسٹم میں فٹ بیٹھتا ہے۔ ‘‘
وہیں بشریٰ میڈیا کے کردار پر بھی سوال اٹھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ،’’میڈیا نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ ڈرائیور ہے ، جب اسے عدالت میں لایا جاتا ہے تو اس کے ہاتھ کسی بڑے مجرم کی طرح ہتھکڑیوں سے بندھے ہوتے ہیں۔ کسی بے گناہ کو اتنی دیر جیل میں کیسے رکھا جا سکتا ہے؟ ان سے بات کریں اور انہیں باہر لانے میں ہماری مدد کریں؟ ‘‘
(بشکریہ: نیوزلانڈری )