حکیم(ڈاکٹر) ضیاء الدین احمد ندوی
ماہ رمضان مبارک کی کچھ خاص خصوصیات پر غور کرتے ھین۔آپ کے علم میں ھے کہ اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزہ کی فرضیت بھی بتدریج عاید کی گی ھے۔نبی کریم صلعم نے ابتدا میں مسلمانوں کو ھر مھینہ صرف تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمای تھی،مگر یہ روزے فرض نہ تھے،پھر سن ٢ ھجری میں رمضان کے روزوں کا حکم قرآن میں نازل ھوا، جس کی تفصیل اس طرح ھے۔
ا۔فرضیت، جن آیات کے حوالہ سے ھم انسانوں پر روزہ کی فرضیت ثابت ھوتی ھے، وہ یہ ھین۔
الف’ ۔ سورہ بقرہ آیت نمبر
١٨٣, اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گیے ھین،جیسے کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گیے تھے’
ب، سورہ بقرہ،آیت نمبر ١٨٥, ‘ تم میں سے جس کسی کو ماہ رمضان ملے اس پر لازم ھے کہ وہ روزہ رکھے’
اب روزہ کی فرضیت کا مقصد بھی قرآن ھی سے سمجھتے ھیں۔
اسی سورہ بقرہ کی آیت نمبر١٨٣ کے آخری حصہ میں فرمایا گیا ھے
"لعلکم تتقو ن” جس کا ترجمہ ھے” تا کہ تم متقی بن جاو”.
‘تقوی’ عربی زبان میں بالعموم تین معنوں میں استعمال ہوتا ھے۔
١. اللہ کا خوف ٢. آخرت میں اپنے اعمال کی جوابدہی کی فکر ٣. اس دنیا کی رعنایوں اور شیطان کی سازشوں سے اپنے آپ کو بچانا اور پرھیز کرنا۔
ان تینوں صفات سے متصف ھونے کی پورے مھینہ کوشش کرنا ھے۔تبھی اس مبارک مہینہ سے ھم بھرپور استفادہ کرسکیں گے۔
اس عبا دت کی ایک خصوصیت یہ بھی ھے کہ اللہ عزوجل فرماتے ھین کہ” کل عمل ابن آدم لہ،الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ”البخاری۔٥٩٢٧.
یعنی انسان کو اس کے ہر عمل کا بدلہ ملے گا لیکن روزہ کا بدلہ میں خود دوں گا کیوںکہ بندہ نے میری ھی خاطر روزہ رکھا ھے( اور بھوکا پیاسا رھا ھے۔)
اتنی اہم بات کسی اور عبادت کے تعلق سے نہیں کہی گی ھے۔
اس خاص مھینہ میں ایک اہم رات بھی آتی ھے جس کو شب قدر کہتے ھیں،اسی رات مین قرآن مجید نازل ھوا۔ اس پر بعد میں گفتگو کریں گے،انشاءاللہ،زندگی بخیر۔اللہ ھم سب کو اس ماہ مبارک سے پوری طرح فایدہ اٹھانے کی توفیق دے،آمین۔