عبدالسلام عاصم
ایک سے زیادہ مذاہب اور مذہبی ثقافتوں کی نمائندگی کرنے والے ملک میں حکومت کو لادین نہ ہوتے ہوئے بھی اجتماعی طور پر کسی مذہب کی نمائندگی نہیں کرنی چاہئے،اور ایسے مذہب کی تو ہرگز نہیں جس کے پیروکار اکثریت میں ہوں۔ حکمراں حلقے اور اپوزیشن کے ہر نمائندے کو خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، اپنے دین/دھرم سے انفرادی تعلق رکھنا چاہیے۔ اجتماعی حکومتی ذمہ داریاں عین انسانی تقاضوں کے مطابق نبھائی جانی چاہئیں۔
بد قسمتی سے ہندستان اور پاکستان میں حقیقی تعلیم کی کمی کے سبب ایسا نہیں ہو پاتا۔ دونوں ہی ملکوں میں کسی نہ کسی مذہبی گروپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک خالصتاً اُس کا ہے، باقی مذاہب کے لوگ دوسرے درجے کے شہری نہ ہوتے ہوئے بھی شمار میں دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ہندستان میں ایسی سوچ کا پھر بھی وقفے وقفے سے ازالہ ہوتا رہتا ہے لیکن پاکستان میں حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، جس کی کچھ نقل حالیہ دنوں میں یہاں بھی کی جانے لگی ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی سب خیریت نہیں۔
ایسا کیوں ہے اس پر اگر اہل علم غیر جانبدارانہ طور پر غور کریں تو صاف واضح ہو جائے گا کہ یہ نظریاتی سوچ کو علم سمجھنے اور اسے حقیقی تعلیم کے متوازی کھڑا کر نے کا نتیجہ ہے۔نظریہ کسی صورت علم نہیں، اس کا تعلق یقین اور عقیدے سے ہوتاہے جوسمجھنے سے زیادہ ماننے اور منوانے والی چیزہے، خواہ اِس کے لئے طاقت ہی کیوں نہ استعمال کی جائے۔ دوسری طرف حقیقی علم کا تعلق سمجھنے، جاننے اور اُن اوہام کو مٹانے سے ہے جو کسی یقین کو خطرناک موڑ تک لے جاسکتے ہیں۔ علم صرف ذاتی عداوت کو پہچانتا ہے اور اسے جواز سمیت ختم کرنے کی عقلی کوشش کرتا ہے۔ دوسری جانب نظریاتی سوچ اور عقیدے کا تعلق اجتماعی تسلط پر یقین سے ہے اور اِسے منوانے کی زبانی کوشش کو کامیاب بنانے کیلئے طاقت کا بے دریغ استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
اکثر فرقہ وارانہ فسادات میں مارنے اور مرنے والے ایک دوسرے کو نہیں جانتے، نہ ان میں کوئی ذاتی جھگڑا یا دشمنی ہوتی ہے۔ پھر بھی وہ ایک دوسرے پر پل پڑتے ہیں اور حسب طاقت حریف کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ جس حلقے کا زیادہ نقصان ہوتا ہے وہ اپنے لئے مظلوم کا لقب اختیار کر لیتا ہے اور جس کا نقصان کم ہوتا ہے وہ مانے یا نہ مانے زمانے کو ظالم نظر آنے لگتا ہے۔
یہی وہ منظر نامہ ہے جس کو بدلنے کیلئے ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے جو مذاہب بیزارلوگوں پر نہیں، بلکہ مذہبی آزار سے پاک نمائندوں پر مشتمل ہو۔بدقسمتی سے ہندستان کی سابقہ حکومتوں نے علمی سطح پر ایسے کسی نظم کو فروغ ہی نہیں دیا اور پاکستان میں توروازِ اول سے مذہبی آزار حکمرانوں اور مختلف النوع سیاست دانوں کا ہی کاروبارچلتا آ رہا ہے۔
اس لحاظ سے برصغیر کا موجودہ منظر نامہ انتہائی تشویشناک ہے اور اسے بدلنے کی سوچ رکھنے والے ہر جگہ بری طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ جہاں کہیں سے بھی انقلابی سوچ رکھنے والوں کو منظم کرنے کی کوشش شروع کی جاتی ہے، اِس کوشش کو موقع پرستوں کی نظر لگ جاتی ہے۔بدقسمتی سے کچھ اعتدال پسند مذہبی گھرانے دوہرا کردار رکھتے ہیں۔انہیں حکومت سے بھی فائدہ چاہئے اور مسائل بھُنا کرکے وہ اپنے محدود مفادات کا کاروبار بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے گھرانے تنظیموں اور مجالس کی شکل میں دونوں حلقوں میں سرگرم عمل ہیں۔
جس طرح کفن فروش شرح اموات کم کرنے والی کسی طبی جستجو سے کبھی دل سے اتفاق نہیں کر سکتا، عین اسی طرح بین فرقہ عدم تشدد سے جنونی مذہبی عناصر کبھی اتفاق نہیں کر سکتے جو فساد میں گرنے والی لاشوں اور زخمیوں کی تعداد کے حساب سے نفع نقصان کا کاروبار ہی نہیں کرتے بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے موضوع پر زبانی جمع خرچ کی نقد داد بھی وصول کرتے ہیں۔ اس ماحول نے برصغیر کی انتخابی سیاست کو انتہائی خستہ کر رکھا ہے۔
حالات کے تازہ موڑ پر 2022 کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل اتر پردیش میں پاپولیشن کنٹرول بل لانے کا مقصدبظاہر اِس کے سوا کچھ نہیں کہ مخالفت کرنے والوں کے خلاف صف بندی کی جائے اور اُس سے انتخابی فائدہ اٹھایا جائے۔ ردعمل پسند روایتی ملی قیادت اگرچہ سوچے سمجھے بغیر حسبِ سابق میدان میں کود پڑی ہے، لیکن خوش قسمتی سے مغربی بنگال کے انتخابات نے نئی نسل میں ایک حد تک انتخابی محاذ پربیدار ی پیدا کردی ہے۔ یہ اُس کی ہی برکت ہے کہ نئی نسل کے صحت مند سوچ والے حلقے نے محدود مفادات کے انتخابی ہتھکنڈوں کو سمجھنا شروع کردیا ہے۔ وہ جان گئے ہیں کہ یہ بل مشترکہ طور پر دونوں فرقوں کیلئے سازگار کم اور پریشان کن زیادہ ہوگا، اس لئے ان کی طرف سے بل کا کوئی سخت مخالفانہ نوٹس نہیں لیا گیا۔
اس بار حقیقی طور پر پڑھے لکھے مسلمانوں نے کسی بھی بے ہنگم رد عمل کے مقابلے میں اسٹریٹجک دانش مندی کو ترجیح دی ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کی نئی نسل بفضلہ اب اِس بات سے بخوبی واقف ہو گئی ہے کہ ملک میں تنگ مفادات کے لئے سیکولرازم کے استحصال کے بعد اب مذاہب کے خطرناک استحصال کی سیاست کی جارہی ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ ماضی کے نقصان میں حال کا نقصان شامل کرنے والی کوئی بھی غلطی دہرائی جائے۔خاص طور پر یہ نوجوان اپنی نام نہاد ملی قیادت کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر عقل استعمال کرنے کی کوئی چیز ہے، تو اسے استعمال بھی کرنا چاہئے۔
اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن کی برکت سے عالمی اور علاقائی سیاست میں بعض خوش آئند تبدیلیوں کی ابتدائی جھلک نے مسلمانوں کی سر دست محدود تعلیم یافتہ نئی نسل کو میں ایک طرح کی عملی بیداری پیدا کر دی ہے۔ اب وہ دوست /دشمن کی پرانی فہرست ڈھونے کے بجائے اپنی تفہیم کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ انہیں سمجھ میں آنے لگا ہے کہ ہر مخالف دشمن نہیں ہوتا اور ہر پسند حق اور ناپسند باطل نہیں۔دشواری یہ ہے کہ مسئلہ صرف نظریاتی دشمنی تک محدود نہیں، عقل کی بات سننے اور سنانے کے لئے سامعین کا خاصا فقدان ہے۔اِس کی ایک بہت ہی واضح وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں دو چیزیں ہیں: ایک تعلیم اور دوسرا مذہب۔ مذہب اور تعلیم کے مابین بنیادی فرق یہ ہے کہ تعلیم صرف پڑھے لکھے لوگوں کا حصہ ہے، جاہل اسے سنبھالنے کے متحمل نہیں۔ دوسری طرف دین کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ یہ تعلیم یافتہ اور جاہل دونوں کو یکساں طور پر دستیاب ہے۔ایسے میں علم کا بے جا استحصال کرنے والے مذہب کی تجارت پر اتر آتے ہیں اور جاہلوں سے مذہب کے نام پر انتہا پسندانہ تشدد اور ماب لنچنگ تک کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔مذہب ویسے بھی بنیادی طور پر ایک مان لینے تک محدود عقیدہ ہے۔ایسے میں بدقسمتی سے معصوم، سادہ لوح یا جذباتی لوگ جعلی مذہبی رہنماؤں کی وجہ سے اکثر ناحق کو حق سمجھنے لگتے ہیں اور تشدد کو باطل کے خلاف حق کی لڑائی سمجھ بیٹھتے ہیں۔
نظریاتی سوچ خواہ وہ یمینی ہویا یساری تعلیم ہرگز نہیں ہے۔ البتہ دونوں انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔حقیقی تعلیم ہی انسانی وسائل کی ترقی اور اس ترقی سے زیادہ سے زیادہ ذہنی استفادے کی راہ ہموار کرتی ہے اور یہی مقصد کُن یعنی کائنات کی تخلیق کے مقصد کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔