نئی دہلی :(ایجنسی)
اتر پردیش حکومت کی طرف سے بلڈوزر سے کی جانے والی کارروائی کے معاملے میں جمعرات کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران، سپریم کورٹ نے اترپردیش حکومت سے کہا کہ انہدام کی کارروائی قانون کے مطابق کی جانی چاہیے اور انتقامی نہیں ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو 3 دن کا وقت دیا ہے۔
اس دوران اتر پردیش حکومت کو عدالت عظمیٰ کو بتانا ہوگا کہ اتر پردیش میں انہدام کی حالیہ کارروائی میں پورے طریقہ کار اور میونسپل قانون کی پیروی کی گئی ہے۔ عدالت نے اپنی بات پر زور دیا کہ کوئی بھی کارروائی قانون کے مطابق ہوگی۔
جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کی تعطیلاتی بنچ جمعیۃ علماء ہند کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی۔
عرضی میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی جائے کہ ریاست میں تعمیرات کوگرائے جانے کی کوئی بھی کارروائی بغیرمناسب کارروائی کے نہ کی جائے۔ اس سےپہلے دہلی کے جہانگیرپوری میں بلڈوزر چلائےجانے کے معاملےمیں بھی سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی تھی ۔
تب سپریم کورٹ نے شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن کو جمود برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا اور نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ بتا دیں کہ جہانگیر پوری میں بھی اپریل کے مہینے میں ایک مذہبی جلوس کے دوران تشدد ہوا تھا۔
جاوید کا گھر مسمار کر دیا گیا
بی جے پی لیڈر نوپور شرما اور نوین جندل کی طرف سے پیغمبر اسلامؐ پر کئے گئے متنازعہ ریمارکس کے بعد اتر پردیش میں کانپور، پریاگ راج، سہارنپور سمیت کئی مقامات پر زبردست مظاہرے ہوئے۔ پریاگ راج میں جمعہ کو نماز جمعہ کے بعد احتجاج کے دوران پتھراؤ کا واقعہ پیش آیا اور اس کے بعد پولیس نے اس معاملے میں ملزم بنائے گئے محمد جاوید کے گھر کو منہدم کر دیا۔
اتر پردیش میں اس سے پہلے بھی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے کئی معاملات میں کئی ملزمین کے گھروں پر بلڈوزر چلا چکی ہے اور اسےلے کر تمام طرح کے سوال اٹھتے رہے ہیں۔
درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل سی یو سنگھ نے کہا کہ اترپردیش میں نوپورشرما اور نوین جندل کے ذریعہ کئےگئے متنازع ریمارکس کے بعد ہوئے تشدد کے معاملےمیں ریاستی حکومت تشدد میںمبینہ طور سے شامل ملزمین کے گھروں کو گرائے جانےکی کارروائی کررہی ہے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس طرح کی کارروائی قانون اور قواعد کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔
اس پر جسٹس بوپنا نے کہا کہ بغیر نوٹس کے تعمیرات کو گرانے کی کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ جسٹس بوپنا نے کہا کہ ہمیں اس معاملے میں محتاط رہنا چاہئے کیونکہ جن لوگوں کے مکانات گرائے گئے ہیں وہ عدالت سے رجوع نہیں کر سکیں گے۔
اترپردیش حکومت نے جمعیۃ علماء ہند کی عرضی کی مخالفت کی۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ریاستی حکومت کی طرف سے عدالت میں پیش ہوتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔
اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل ہریش سالوے نے کہا کہ پریاگ راج کے معاملے میں تشدد سے پہلے ہی مئی میں نوٹس جاری کیا گیا تھا اور 25 مئی کو مسمار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے حلف نامہ داخل کرنے کے لیے عدالت سے تین دن کا وقت مانگا۔
جسٹس بوپنا نے کہا کہ ہم بھی معاشرے کا حصہ ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے، اگر کوئی شکایت کرے گا تو عدالت بچاؤ میں نہیں آئے گی تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ عدالت مکانات گرانے کی کارروائی کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرے۔
عدالت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ اتر پردیش حکومت کو کانپور تشدد کیس میں ملوث ملزمان کی رہائشی یا تجارتی جائیدادوں پر کوئی کارروائی کرنے سے روکے۔